انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
ایصالِ ثواب کی چار صورتیں اور ان کا حکم؟ مجموعی طور پرایصالِ ثواب کی چار صورتیں ہیں: (۱)مرحومین کے لئے دُعاء، اس کے درست ہونے پرتمام علماء اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے؛ اس کی سب سے بڑی دلیل خود قرآن مجید ہے، جس میں اپنے متوفی دینی بھائیوں کے لئے بھی دُعاء کرنا سکھایا گیا ہے: رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ۔ (الحشر:۱۰) (۲)مالی عبادتوں یعنی صدقات اور قربانی وغیرہ کے ذریعہ اس کے جائز ہونے پربھی اہلِ سنت والجماعت کا اجماع واتفاق ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ائمہ اس بات پرمتفق ہیں کہ صدقہ کا ثواب میت کوپہونچتا ہے او رایسے ہی دوسری مالی عبادت کا جیسے غلام آزاد کرنا، اس سلسلہ میں صریح حدیث موجود ہے: ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یارسول اللہ ﷺ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے؛ اگرمیں ان کی طرف سے صدقہ کروں توکیا ان کونفع پہونچے گا، آپ نے جواب دیا ہاں!؛ اسی طرح خود رسول اللہ ﷺ کا اپنی امت کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے، ظاہر ہے کہ یہ بہ طور ایصالِ ثواب کے ہی تھا۔ (۳)حج کے ذریعہ ایصالِ ثواب بھی درست ہے، جومالی عبادت بھی ہے اور بدنی بھی، آپﷺ نے ایک خاتون کواپنی مرحوم والدہ کی طرف سے حج کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے، حدیث کی کتابوں میں بہ صراحت ووضاحت اس کا ذکر موجود ہے۔ (۴)بدنی عبادات جیسے قرآن، نماز، روزہ، ان کا ثواب پہونچے گا یانہیں؟ اس میں اہلِ سنت والجماعت کے ائمہ کے درمیان اختلاف ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بدنی عبادت کے ذریعہ ایصالِ ثواب درست نہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انسان کے لئے وہی ہے جس کواس نے خود کیا ہے اور حنفیہ وحنابلہ اور مالکیہ کے نزدیک بدنی عبادات کے ذریعہ بھی ایصالِ ثواب جائز ہے اور اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ ایمان کے بارے میں انسان کا اپنا عمل ہی مفید ہے، باپ کا ایمان کافر بیٹے، یابیٹے کا ایمان کافر باپ کے لئے مفید نہیں، ان حضرات کی نگاہ احادیث پر ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں مرحوم کی طرف سے اس کے ولی کے روزہ رکھنے کا حکم نبی ﷺ منقول ہے: مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ۔ (بخاری، كِتَاب الصَّوْمِ،بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ،حدیث نمبر:۱۸۱۶، شاملہ، موقع الإسلام) ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے مردہ پرسورہ یسٰیٰن پڑھنے کوفرمایا، ایک صاحب نے آپ ﷺ سے استفسار کیا کہ میں اپنے والدین کے ساتھ ان کی زندگی میں حسن سلوک کیا کرتا تھا اب کس طرح حسن سلوک کرسکتا ہوں؟ ارشاد فرمایا: مرنے کے بعد حسن سلوک یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ساتھ ان دونوں کے لئے بھی نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ساتھ اُن لوگوں کے لئے بھی روزہ رکھو۔ مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں آیت: وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّامَاسَعَىٰکی تفسیر میں اس پرتفصیل سے گفتگو کی ہے اور ایصالِ ثواب سے متعلق روایات کوجمع فرمایا ہے؛ چونکہ عبادات بدنیہ سے ایصالِ ثواب کے ثبوت پربہ کثرت روایات منقول ہیں، اس لئے اکثر شوافع محققین نے بھی اس مسئلہ میں حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کی رائے کوقبول کیا ہے؛ غرض کہ عام طور پراہلِ سنت والجماعت کے نزدیک دُعا، بدنی عبادات، مالی عبادت، ومرکب بدنی ومالی عبادت سب سے ایصالِ ثواب درست ہے، خاتم الفقہاء علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: انسان کے لئے یہ درست ہے کہ اپنے عمل نماز یاروزہ یاصدقہ یااس کے علاوہ کا ثواب دوسرے کے لئے کردے، اہلِ سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے؛ البت آج کل پیسے لے کرآیت کریمہ اور ختم قرآن کا جوطریقہ مروج ہوگی اہے یادعوت کی وجہ سے قرآن پڑھ کرایصال ثواب کی جوصورت رواج پاگئی ہے، یہ درست نہیں، یہ توگویا آیات قرآنی کوفروخت کرنے کے مترادف ہے، علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے خوب نکتہ کی بات کہی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ جب آدمی پیسے لیکر قرآن پڑھے تواس کا یہ عمل اخلاص سے خالی ہونے کی وجہ سے خود ہی باعثِ ثواب باقی نہیں رہا اور جب یہ عمل باعثِ اجر ہوا ہی نہیں تودوسروں کوکیوں کراس کا ثواب پہونچایا جاسکتا ہے، ایسی باتوں سے بچنا چاہئے۔ (کتاب الفتاویٰ:۳/۲۰۴،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ عثمانی:۱/۶۴، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، یوپی۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۴۳۸، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)