انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پارے آجکل قرآن کریم تیس اجزاء پر منقسم ہے؛ جنھیں تیس پارے کہا جاتا ہے، یہ پاروں کی تقسیم معنی کے اعتبارسے نہیں ؛ بلکہ بچوں کو پڑھانے کے لیے آسانی کے خیال سے تیس مساوی حصوں پر تقسیم کردیا گیا ہے؛ چنانچہ بعض اوقات بالکل ادھوری بات پر پارہ ختم ہوجاتا ہے، یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تیس پاروں کی تقسیم کس نے کی ہے؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف نقل کراتے وقت انھیں تیس مختلف صحیفوں میں لکھوایا تھا؛ لہٰذا یہ تقسیم آپ ہی کے زمانہ کی ہے؛ لیکن متقدمین کی کتابوں میں اس کی کوئی دلیل نہیں مل سکی؛ البتہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قرآن کے تیس پارے مشہور چلے آتے ہیں اور مدارس کے قرآنی نسخوں میں اُن کا رواج ہے۔ (البرہان: ۱/۲۵۰، مناہل العرفان: ۱/۴۰۲) بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقسیم عہدِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد تعلیم کی سہولت کے لیے کی گئی ہے، واللہ اعلم۔