انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر کا پتہ نہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد ابن ملجم کو حضرت حسنؓ کی خدمت میں پیش کیا گیا اورانہوں نے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ تریسٹھ سال کی عمر اورپونے پانچ سال کی خلافت کے بعد شہید ہوئے، حضرت حسن بن علیؓ ، حضرت حسین بن علیؓ اور حضرت عبداللہ بن جعفرؓ نے آپؓ کو غسل دیا اور تین کپڑوں میں کفنایا جن میں قمیص نہ تھا، حضرت امام حسنؓ نے آپ ؓ کے جنازہ کی نماز پڑھائی،بعض روایتوں کے بموجب مسجد کوفہ میں، بعض کے موافق اپنے مکان میں،بعض کے موافق کوفہ سے دس میل کے فاصلہ پر دفن کئے گئے، بعض روایتوں کے بموجب حضرت امام حسن ؓ نے آپ کے جسدِ مبارک کو خارجیوں کے خوف سے کہ کہیں آپ کی بے حرمتی نہ کریں نکال کر ایک دوسری قبر میں پوشیدہ طور پر دفن کیا،ایک اور روایت کی موافق آپ ؓ کے تابوت کو مدینہ منورہ لے جانے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب دفن کریں، اثناء راہ میں وہ اونٹ جس پر آپ کا جنازہ تھا، بھاگ گیا اور پھر اُس کا کہیں پتہ نہ چلا، ایک اور روایت کی موافق وہ اونٹ طے کی سرزمین میں ملا، لوگوں نے اُس کو پکڑ کر آپ ؓ کا جنازہ وہیں دفن کردیا، غرض آج تک اتنے بڑے اور عظیم الشان شخص کے مزار کا صحیح حال کسی کو معلوم نہ ہوا کہ کہاں ہے؟ اس کی وجہ وہی معلوم ہوتی ہے کہ خارجیوں کے خوف سے آپ ؓ کو ایسی جگہ دفن کیا گیا جس کا حال عام لوگوں کو معلوم نہ ہو، اس میں ایک یہ بھی حکمتِ الہی معلوم ہوتی ہے کہ بعد میں لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خدائی تک مرتبہ دینے میں تامل نہیں کیا، اگر ان کے مزار کا صحیح علم ہوتا تو اُس کو لوگ شرک کی منڈی بنائے بغیر ہرگز نہ رہتے،جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بزرگوں کی قبروں کو لوگوں نے قبلہ اوربُت بنا رکھا ہے اور مسلمان کہلا کر مشرکینِ مکہ سے کسی حالت میں کم نظر نہیں آتے جس کا جی چاہے سالانہ عرسوں کے موقع پر جو بزرگوں اورنیک لوگوں کی قبروں پر ہوتے ہیں، مسلم نما مشرکوں کے کرتوتوں کا تماشا جاکر دیکھ آئے۔