انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عامر ؓبن اکوع نام ونسب عامر نام،باپ کا نام سنان ہے،دادا کی نسبت سے عامر بن اکوع مشہور ہوئے نسب نامہ یہ ہے:عامر بن سنان بن اکوع بن عبداللہ بن قشیر بن خزیمہ بن مالک بن سلامان بن اسلم اسلمی اسلام ان کے اسلام کا زمانہ متعین طور سے نہیں بتایا جاسکتا، مگر اس قدر معلوم ہے کہ خیبر سے پہلے مشرف باسلام ہوچکے تھے، اوراس میں وہ آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے،عامر خوش گلو تھے کسی نے حُدی سنانے کی فرمایش کی،یہ سواری سے اتر کر سنانے لگے۔ اللھم لولاانت ما اھتدینا لا تصدقنا ولاصلینا اے خدا اگر تو ہدایت نہ کرتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ ہم صدقہ کرتے نہ نماز پڑہتے فاغفر فذالک ماابقینا وثبت الاقدام ان لاقینا جب تک زندہ ہیں تجھ پر فدا ہوں،ہماری مغفرت فرما اورہم دشمنوں کے مقابلہ میں اٹھیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ والقین سکینۃ علینا افا اذا میح بنا اتینا اورہم پر تسلی نازل کر جب ہم فریاد میں پکارے جاتے ہیں تو ہم پہنچ جاتے ہیں۔ وبالصیاح عولواعلینا لوگوں نے پکار کر ہم سے استیغاثہ چاہا ہے آنحضرت ﷺ نے آواز سن کر پوچھا یہ سایق کون ہے، لوگوں نے کہا عامر بن اکوع فرمایا خدا ان پر رحم کرے یہ دعا سن کر کسی نے کہا، اب ان پر جنت واجب ہوگئی ،یا نبی اللہ ابھی ان کی بہادری سے فائدہ اٹھانے کا موقع کیوں نہ دیا گیا۔ (آنحضرتﷺ جسے رحمت کی دعا دیتے تھے وہ بہت جلد خلعت شہادت سے سرفراز ہوجاتا تھا،اس لیے کہنے والے (بروایت مسلم یہ حضرت عمرؓ تھے) کو اس کا یقین ہوگیا کہ عامر اسی لڑائی میں شہید ہوجائیں گے اس لئے اس نے کہا کہ ہم کو ان کی بہادری سے استفادہ کا موقع کیوں نہ دیا گیا) شہادت خیبرپہنچ کر جب لڑائی کا آغاز ہوا تو عامر نے ایک یہودی کی پنڈلی پر تلوار کا وار کیا،تلوارچھوٹی تھی یہودی کو نہ لگی اورزور میں گھوم کر اس کا سر ا خود ان کے گھٹنے پر لگ گیا اس کے صدمہ سے وہ شہید ہوگئے، اس طرح کی موت پر لوگوں نے یہ غلط رائے قائم کی کہ یہ خودکشی ہے،اس لیے عامر کے تمام افعال برباد ہوگئے،غزوۂ خیبر سے واپسی کے بعد ایک دن آنحضرتﷺ عامر کے بھتیجے سلمہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے،سلمہ اس عام شہرت سے بہت متاثر تھے، آنحضرتﷺ نے پوچھا خیر ہے، عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں لوگوں کا خیال ہے کہ عامر کے تمام اعمال باطل ہوگئے،فرمایا جو شخص ایسا کہتا ہے وہ جھوٹا ہے ان کو دوہرا اجر ملے گا۔