انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قبائل قریش میں آپ کا حاکم مقرر ہونا خانۂ کعبہ میں کسی بدا حتیاطی کے سبب آگ لگ گئی تھی جس کے صدمہ سے دیواریں بھی جا بجا شق ہوگئی تھیں،قریش نے ارادہ کیا کہ اس عمارت کو منہدم کرکے پھر ازسرِ نو تعمیر کیا جائے اس رائے پر تو سب کا اتفاق ہوگیا لیکن کھڑی ہوئی عمارت کو منہدم کرنے پر کوئی آمادہ نہ ہوتا تھا اور سب ڈرتے تھے،آخر سردارانِ قریش میں سے ولید بن مغیرہ نے اس کام کو شروع کردیا،پھر رفتہ رفتہ تمام قبائل اس انہدام کے کام میں شریک ہوگئے،اسی زمانہ میں بندرگاہِ جدہ کے قریب ایک جہاز ٹوٹ کر ناکارہ ہوگیا تھا، اُس کا حال معلوم ہوا تو قریش نے اپنے معتمد آدمیوں کو بھیج کر اس جہاز کی لکڑی خرید لی اور کار آمد لکڑیاں اونٹوں پر لاد کر مکہ میں لے آئے،یہ لکڑی خانہ کعبہ کی چھت کے لئے خریدی گئی تھی، کعبہ کی دیواروں کو منہدم کرتے ہوئے جب تعمیر ابراہیمی کی بنیادوں تک پہنچے تو پھر تعمیر شروع کردی،چونکہ چھت کے لئے پوری لکڑی نہ تھی اس لئے خانہ کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں پر پورا تعمیر نہیں کیا؛بلکہ ایک طرف تھوڑی جگہ چھوڑدی،اب تعمیر بلند ہوتے ہوتے اُس مقام تک پہنچ گئی کہ حجرِ اسود رکھا جائے،قبائل قریش میں ایک سخت فساد اورجنگِ عظیم کے سامان پیدا ہوگئے،یہ جھگڑا اس بات پر ہوا کہ ہر ایک قبیلہ کا سردار یہ چاہتا تھا کہ حجر اسود کو میں اپنے ہاتھ سے رکھوں،قبائل میں ایک دوسرے کے خلاف ضد پیدا ہوگئی اور ہر طرف سے تلواریں کھینچ گئیں،بنو عبدالدار مرنے اورمارنے پر قسم کھا بیٹھے، اس جھگڑے میں پانچ روز تک تعمیر کا کام بند رہا،آخر قبائل قریش خانہ کعبہ میں جمع ہوئے اورایک مجلس منعقد کی گئی، اس مجلس میں ابو امیہ بن مغیرہ نے تجویز پیش کی کہ جو شخص سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوتا ہوا نظرا ٓئے اسی کو حکم مقرر کیا جاوے، وہ جو فیصلہ کرے سب اُس پر رضا مند ہوجائیں،لوگوں نے نگاہ اٹھا کر جو دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہورہے تھے،سب نے آپ کو دیکھتے ہی ‘‘الامین’ الامین’’پکارا اورکہا کہ آپ کے فیصلہ پر ہم رضا مند ہیں،آپ اس مجلس میں داخل ہوئے تو سب نے معاملہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا اورکہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے حق میں چاہیں فیصلہ کردیں،ہم آپ کے فیصلہ پر رضا مند ہیں،یہ ذرا سوچنے اور غور کرنے کا موقع ہے کہ جس عزت اورشرف کو ہر قبیلہ حاصل کرنا چاہتا تھا اورخون سے بھرے ہوئے پیالے میں انگلیاں ڈال ڈال کر اُس زمانے کی رسم کے موافق مرنے مارنے پر شدید وغلیظ قسمیں کھا چکے تھے اُس عزت وشرف کے معاملہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کرنے میں سب مطمئن ہیں جو دلیل اس امر کی ہے کہ آپ کی دیانت اورمنصف مزاجی پر سب ایمان لائے ہوئے تھے آپ نے معاملہ سے آگاہ ہوکر اُسی وقت ذرا اسی دیر میں جھگڑے کو ختم کردیا اورتمام بوڑھے اورتجربہ کار سردارانِ قریش آپ کی ذہانت، قوتِ فیصلہ اورمنصف مزاجی کو دیکھ حیران رہ گئے اور سب نے بالاتفاق احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فیصلہ کیا کہ ایک چادر پچھائی اُس پر حجرِ اسود اپنے ہاتھ سے رکھ دیا پھر ہر ایک قبیلہ کے سردار سے کہا کہ چادر کے کنارے کو پکڑلو؛چنانچہ تمام سردارانِ قریش نے مل کر اُس چادر کے کنارے چاروں طرف سے پکڑ کر پتھر کو اٹھایا،جب پتھر اس مقام پر پہنچ گیا جہاں اس کو نصب کرنا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر سے اُٹھا کر وہاں نصب کردیا کسی کو کوئی شکایت باقی نہ رہی اور سب آپس میں رضا مند رہے، اس واقعہ میں عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس،اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزٰی، ابو حذیفہ بن مغیرہ بن عمربن مخزوم، اورقیس بن عدی السہمی چار شخص بہت پیش پیش تھے اور کسی طرح دوسرے کے حق میں معاملہ کو چھوڑنا نہ چاہتے تھے اس فیصلہ سے یہ چاروں بہت خوش اور مسرور تھے،اگر ملک عرب میں یہ جنگ چھڑ جاتی تو یقیناً یہ تمام اُن لڑائیوں سے زیادہ ہیبت ناک اورتباہ کن جنگ ثابت ہوتی جو اب تک زمانہ جاہلیت میں ہوچکی تھیں،جس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حجر اسود والے جھگڑے کا فیصلہ کیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۳۵ سال کی تھی۔