انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنت کی رجسٹری اور داخلہ کے لیے الہٰی اجازت نامہ (ویزا) جنت کی رجسٹری: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍo وَمَاأَدْرَاكَ مَاسِجِّينٌo كِتَابٌ مَرْقُومٌo يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ۔ (المطففین:۷،۸،۹،۲۱) ترجمہ:ہرگز ایسا نہیں (بلکہ) نیک لوگوں (کے جنتی ہونے) کا شاہی فرمان علیین میں (لکھ کررکھ دیا گیا) ہے اور آپ کوکیا معلوم علیین میں رکھا ہوا شاہی فرمان کیا ہے وہ ایک صحیفہ ہے لکھا ہوا (جس کے اجراء کے وقت) مقرب (فرشتے اور انبیاء) موجود تھے (کہ اس شخص کوہم جنت میں داخل کریں گے)۔ (مستفاد من حادی الارواح:۱۰۳) جنت کا پاسپورٹ (داخلہ کا اجازت نامہ): حدیث:حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: لايدخل الجنة أحد إلابجواز بسم الله الرحمن الرحيم، هذا كتاب من الله لفلان بن فلان أدخلوه جنة عالية قطوفها دانية (طبرانی کبیر:۶۱۹۱۔ حاوی الارواح:۱۰۶) ترجمہ:کوئی شخص بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا مگر(اس) اجازت نامہ کے ساتھ بسم الله الرحمن الرحيم، هذا كتاب من الله لفلان بن فلان أدخلوه جنة عالية قطوفها دانية۔ اس اجازت نامہ کا ترجمہ یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاں بن فلاں کے لیے اجازت نامہ ہے (اے فرشتو!) اس کواس جنت میں داخل کردو جوبڑی شان والی ہے اس کے میوے جھکے ہوئے ہیں (یعنی اس کی نعمتیں سہل الحصول ہیں)۔ فائدہ: علامہ قرطبیؒ اس حدیث کونقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ شاید کہ یہ اجازت ان مسلمانو ں کے لیے ہے جوحساب کے بعد جنت میں داخل ہوں گے۔ جنتیوں کواپنے منازل اور مساکن کی پہچان: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْo سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْo وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ۔ (محمد:۴،۵،۶) ترجمہ:جولوگ اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں مارے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کوہرگز ضائع نہ کرے گا، اللہ تعالیٰ ان کو (منزلِ) مقصود تک پہنچادے گا اور ان کی حالت (قبراور حشر اور پلصراط اور تمام مواقع آخرت میں) درست رکھے گا اور ان کوجنت میں داخل کرے گا جس کی ان کوپہچان کرادے گا (کہ ہرجنتی اپنے اپنے مقررہ مکان پربغیر کسی تلاش اور تفتیش کے بے تکلف جاپہنچے گا) حضرت مجاہدؒ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جنت والے اپنے گھروں کواور اپنے محلات کواس طرح سے پہچانیں گے کہ بھولیں گے نہیں گویا کہ یہ جب سے پیدا کئے گئے انہیں محلات میں رہ رہے تھے، ان محلات کا پتہ کسی سے نہیں پوچھیں گے۔ (تفسیرمجاہد:۲/۵۹۸، مطولاً۔ حادی الارواح:۱۹۶) حضرت مقاتل بن حیانؒ فرماتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ وہ فرشتہ جوانسانوں کے اعمال کی حفاظت کا ذمہ دار ہے، وہ جنت میں آگے آگے چلے گا اور جنتی اس کے پیچھے پیچھے چلے گا؛ حتی کہ وہ جنتی اپنی آخری منزل تک پہنچ جائے گا اور فرشتہ اس جنتی کوہراس چیز کی پہچان کرادےگا جو اس کواللہ تعالیٰ نے جنت میں عطاء کی ہوگی؛ پھرجب وہ اپنی منزل میں اور اپنی بیویوں کے پاس داخل ہوگا تویہ فرشتہ واپس آجائے گا۔ (یہ تفسیر ضعیف درجہ کی ہے)۔ (درمنثور:۶/۴۸،بحوالہ:ابن ابی حاتم۔ حادی الارواح:۱۹۶) اپنی بیویوں اور گھروں کوجنتی خود بخود جانتے ہوں گے: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: وَاَلَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ مَاأَنْتُمْ فِي الدُّنْيَا بِأَعْرَفَ بِأَزْوَاجِكُمْ وَمَسَاكِنِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ بِأَزْوَاجِهِمْ وَمَسَاكِنِهِمْ إِذَادَخَلُوْا الْجَنَّۃَ۔ (مسنداسحاق راہویہ، البعث والنشور:۶۶۹۔ المطالب العالیہ:۲۹۹۱) ترجمہ:مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے تم دنیا میں اپنی بیویوں اور گھروں کوجنت والوں سے زیادہ نہیں پہچانتے جتنا کہ وہ اپنی بیویوں اور محلات کوپہچانتے ہوں گے جب وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ نوٹ:مذکورہ روایات میں بظاہر اختلاف نظر آتا ہے کہ جنت والے اپنی منازَ کوخود پہچانیں گے یاان کوبتایا جائے گا، اس کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ جنت والے خود بخود اپنی منازل اور ازواج کواللہ کے حکم سے جانتے ہوں گے لیکن کچھ خاص جنتی ایسے ہوں گے جن کے اعزاز اور اکرام کے لیے آگے آگے فرشتہ چلتا ہوگا اور خوشی اور سرور کے اضافے میں تائید کے لیے نشاندہی کرتا ہوگا۔ جنت میں داخلہ کے خوبصورت مناظر اور استقبال: يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا۔ (مریم:۸۵) ترجمہ:جس دن ہم نیک لوگوں کووفد کی شکل میں رحمان کا مہمان بنائیں گے۔ اس آیت کے متعلق حضرت علیؓ نے جناب رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ وفد توسوارلوگوں کوکہا جاتا ہے؟ توجناب نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہےجب یہ جنتی لوگ اپنی قبروں سے اٹھیں گے توان کے استقبال میں سفید اونٹ (سواری کے لیے) پیش کئے جائیں گے جن کے پرلگے ہوں گے اور ان پرسونے کے کجاوے (سجے) ہوں گے، ان کے جوتوں کاتسمہ نور سے چمکتا ہوں، ان اونٹوں کا ہرقدم تاحد نظر پرپڑتا ہوگا، اس طرح سے یہ جنت تک پہنچیں گے تواچانک سرخ یاقوت کا کنڈا سونے کے کواڑوں پرنظر آئے گا اور یہ فوراً ہی جنت کے دروازہ کے ایک درخت پرپہنچیں گے جس کی جڑ سے دوچشمے پھوٹ رہے ہوں گے جب یہ ان میں سے ایک چشمہ سے پئیں گے ان کے چہروں پرنعمتوں کی چمک دمک کوند جائے گی اور جب دوسرے چشمہ سے (غسل اور) وضو کریں گے توان کے بال کبھی پراگندہ نہیں ہوں گے؛ پھریہ جنت کے کنڈے کوکواڑ پرپائیں گے توکاش! کہ اے علی تم اس کواڑ کے کنڈے کے ہلنے کی آواز کوسن لو (کہ کتنا راحت اور سرور سے لبریز ہوگی) تواس کنڈے کے ہلنے کی آواز ہرحور تک پہنچے گی جس سے اس کومعلوم ہوگا کہ اس کا خاوند اب آنا ہی چاہتا ہے تووہ جلدی میں پھرتی کے ساتھ اٹھے گی اور اپنے متولی (فرشتہ) کوروانہ کرے گی تووہ اس جنتی کے لیے (اس کی مخصوص جنت کا) دروازہ کھولے گا؛ اگراللہ تعالیٰ اس جنتی کو (میدانِ محشر میں اپنے زیارت کراکے) اپنی پہچان نہ کراتے تووہ متولی کے نور اور رعنائی کودیکھ کر (اس کوخدا سمجھ کر) سجدہ میں گرجاتا؛ چنانچہ وہ فرشتہ بتائے گا کہ میں آپ کے کاموں کا متولی اور خادم بنایا گیا ہوں پھروہ اس جنتی کواپنے پیچھے پیچھے لے کرچلے گا تووہ اس فرشتے کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا اپنی بیوی کے پاس پہنچ جائے گا تووہ جلدی سے اٹھے گی اور خیمہ سے نکل کر اس سے بغل گیر ہوگی اور کہے گی آپ میری محبت ہیں میں آپ کی محبت ہوں، میں راضی رہنے والی ہوں میں کبھی ناراض نہیں ہوں گی میں نعمتوں اور لذتوں میں قائم دائم رہوں گی؛ کبھی خستہ حال نہیں ہوں گی میں ہمیشہ نوجوان رہوں گی کبھی بوڑھی نہیں ہوں گی؛ پھروہ ایسے محل میں داخل ہوگا جس کی بنیاد سے لیکر چھت تک ایک لاکھ ہاتھ کی اونچائی ہوگی جولؤلؤ اور یاقوت کے پہاڑ پربنایا گیا ہوگا، اس کے کچھ ستون سرخ ہوں گے اور کچھ ستون سبز ہوں گے اور کچھ ستون زرد ہوں گے، ان میں سے کوئی ستون بھی دوسرے ستون کی ہم شکل نہیں ہوگا؛ پھروہ (جنتی) اپنے آراستہ پیراستہ تخت کے پاس آئے گا تواس پرایک (اورمخصوص) تخت ہوگا جس پرستر پلنگ (الگ الگ)سجے ہوں گے جن پرستر دلہنیں ہوں گی، ہردلہن پرستر پوشاکیں ہوں گی (پھربھی) ان کی پنڈلی کاگودا جلد (اور پوشاکوں) کے اندر سے نظر آتا ہوگا، جنتی ان کے ساتھ صحبت کوایک رات کی مقدار میں پورا کرسکے گا۔ ان جنتیوں کے محلات کے نیچے نہریں جوپاکیزہ اور صاف ہوں گی اس میں کوئی گدلاپن نہیں ہوگا اور کچھ نہریں صاف ستھرے شہد کی ہوں گی جوشہد کی مکھیوں کے پیٹ سے نہیں نکلا ہوگا اور کچھ نہریں ایسی شراب کی ہوں گی جوپینے والوں کے لیے سراپالذت ہوگی اس کولوگوں نے اپنے پاؤں تلے روند کرنہیں نچوڑا ہوگا اور کچھ نہریں ایسے دودھ کی ہوں گی جن کا ذائقہ کبھی تبدیل نہیں ہوگا اور یہ جانوروں کے پٹیوں سے نہیں نکلا ہوگا، جب یہ کھانے کی خواہش کریں گے ان کے پاس سفید رنگ کے پرندے آئیں گے اپنے پروں کواوپر اٹھائیں گے تویہ ان کے اطراف سے کھائیں گے جونسے قسم (کے کھانے) چاہیں گے؛ پھر (جب جنتی کھاچکیں گے تو) وہ اڑکرچلے جائیں گے، جنت میں پھل بھی ہوں گے (بوجھ سے) جھکے ہوئے جب جنتی ان کی خواہش کریں گے تووہ ٹہنی خود ان کی طرف مڑجائے گی تووہ جس قسم کے پھل چاہیں گے کھائیں گے کھڑے ہوکر چاہیں یابیٹھ کر چاہیں یاٹیک لگاکر؛ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِدَانٍ (الرحمن:۵۴) ترجمہ:اور ان جنتوں کے میوے جھکے ہوئے ہیں اور ان جنت والوں کے خادم موتیوں کی طرح (خوبصورت اور حسین ہوں گے)۔ (حادی الارواح:۱۹۸، واللفظ لہ، ابن ابی الدنیا۔ صفۃ الجنۃ:۷۔ البدورالسافرہ:۲۱۵۳) عظیم الشان اونٹوں کی سواریاں: (آیتِ مبارکہ) يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا۔ (مریم:۸۵) ترجمہ:جس دن ہم نیک لوگوں کووفد کی شکل میں رحمان کا مہمان بنائیں گے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت نعمان بن سعدؒ بیان کرتے ہیں تمھیں معلوم ہونا چاہئے اللہ کی قسم ان حضرات کووفد کی شکل میں پیدل نہیں چلایا جائے گا بلکہ ان کے پاس ایسے اونٹ لائے جائیں گے جن کی مثل کبھی کسی مخلوق نے نہیں دیکھے، ان پرکجاوے سونے کے ہوں گے او رلگامیں زبرجد کی ہوں گی (یہ اس شان وشوکت کے ساتھ) ان پرسوار ہوکر آئیں گے اور (اپنی اپنی) جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ (حادی الارواح:۱۹۹۔ درمنثور:۴/۲۸۵، بحوالہ ابن مردویہ) حدیث:حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے تقویٰ اختیار کیا ان کوجنت کی طرف گروہ درگروہ لایا جائے گا جب یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پرپہنچیں گے وہاں پرایک درخت کودیکھیں گے جس کی جڑ سے دوچشمے جاری ہورہے ہوں گے تویہ لوگ ان میں سے کسی ایک کی طرف ایسے تیزی کے ساتھ جائیں گے گویا کہ ان کووہاں جانے کا حکم دیا گیا ہے یہ اس سے پئیں گے توجوکچھ ان کے پیٹوں میں تکلیف، گندگی یابیماری ہوگی ختم ہوجائے گی؛ پھریہ دوسرے چشمہ کی طرف جائیں گے اور اس سے غسل کریں گے توان پرنعمتوں کی بہار آجائے گی اور ان کے جسموں میں اس کے بعد کوئی تغیر تبدل نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کے بال پراگندہ ہوں گے (بلکہ ایسے محسوس ہوں گے) گویا کہ انہوں نے تیل لگا (کربالوں کوسلجھا) رکھا ہے؛ پھریہ جنت کے دربانوں تک پہنچیں گے تووہ (دربان بطورِ اکرام اور ثنا کے) کہیں گے يَوْمَ نَحْشُرُطِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ (الزمر:۷۳) ترجمہ: السلام علیکم تم مزہ میں رہو، اس (جنت) میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہوجاؤ۔ پھران کا استقبال لڑکے کریں گے اور وہ اس طرح سے ان کے گرد گھومتے ہوں گے جس طرح سے دنیا والوں کے بچے (خوشی کے مارے) اس دوست کے گرد گھومتے ہیں، جوکافی عرصہ کے بعد واپس آیا ہو اور یہ کہیں گے کہ آپ خوش ہوجائیے اس انعام واکرام سے جواللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے تیار کیا ہے؛ پھران لڑکوں میں سے ایک لڑکا اس جنتی کی حورعین بیویوں میں سے کسی ایک کے پاس جاکر کہے گا وہ فلاں آگیا ہے؛ پھروہ اس جنتی کا وہ نام لے گا جس کے ساتھ وہ دنیا میں بلایا اور پکارا جاتا تھا تووہ کہے گی کیا تونے اس کودیکھا ہے؟ تووہ کہے گا (ہاں ہاں) میں نے اس کودیکھا ہے وہ میرے پیچھے آرہا ہے؛ چنانچہ ان حوروں میں سے ایک خوشی سے اچھل کراٹھے گی حتی کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ تک آجائے گی، جب یہ جنتی اپنے (ایک) محل تک پہنچے گا تواس کی تعمیر کی بنیاد پرنگاہ دوڑائے گا تووہ قیمتی موتی کی چٹان ہوگی جس کے اوپرسبز اور زرد اور سرخ اور ہررنگ کا ایک محل قائم ہوگا؛ پھروہ اپنی نگاہ محل کی چھت پرڈالے گا تووہ بجلی کی طرح (منور) ہوگی اگراللہ تعالیٰ نے اس کودیکھ کربرداشت کرنے کی جنتی میں قوت نہ رکھی ہوتی تووہ (بجلی کی چمک سے) اپنی آنکھوں کے اندھے ہونے کی تکلیف سے دوچار ہوجاتا؛ پھروہ اپنا سرگھمائے گا تواپنی بیویوں کودیکھے گا اور چنے ہوئے آبخوروں کودیکھے گا اور برابر بچھے ہوئے غالیچوں کودیکھے گا اور جگہ جگہ پھیلے ہوئے ریشم کے نہالچوں کودیکھے گا پھریہ ان نعمتوں کودیکھ کر اور ٹیک لگاکر کہے گا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَاكُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَاأَنْ هَدَانَا اللَّهُ (الأعراف:۴۳) شکر ہے اللہ تعالیٰ کا جس نے ہم کو یہاں تک پہنچایا؛ اگراللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطاء نہ کرتے توہم یہاں تک کبھی نہ پہنچ سکتے تھے؛ (پھرجب سب جنتی اپنی اپنی جنتوں میں پہنچ جائیں گے تو) ایک منادی ندا کرے گا تم یہاں زندہ رہو گے کبھی نہیں مروگے، تم ہمیشہ جوان رہوگے کبھی بوڑھے نہیں ہوگے، تم ہمیشہ تندرست رہوگے کبھی بیمار نہیں ہوگے۔ (حادی الارواح:۱۹۹۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲/۱۲۸) جنت میں موت ہوتی توخوشی سے مرجاتے: حضرت حمید بن ہلال فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب انسان جنت میں داخل ہوگا تواس کی شکل جنت والوں کی سی بنادی جائے گی اور ان کا لباس پہنایا جائے گا اور ان کے زیور پہنائے جائیں گے اور اس کواس کی بیویاں اور خدمتگار دکھائے جائیں گے تووہ خوشی سے ایسا متوالا ہوگا کہ اگرموت آنا ہوتی تووہ خوشی سے متوالا ہونے سے مرجاتا؛ لیکن اس کوکہا جائے گا کیا تونے اپنی اس خوشی کی شیفتگی کودیکھا ہے یہ تیرے لیے ہمیشہ قائم رہے گی (بلکہ اور بڑھے گی کم کبھی نہ ہوگی)۔ (زوائد زہدابن المبارک:۴۲۹، نسخہ نعیم بن ہماد) سترہزار خادم استقبال کریں گے: حضرت ابوعبدالرحمن جیلیؒ فرماتے ہیں کہ جب انسان پہلی پہل جنت میں داخل ہوگا توسترہزار خادم اس کا استقبال کریں گے (ان کی شکلیں ایسی ہوں گی) گویا کہ وہ (بکھرے ہوئے) موتی ہیں۔ (زوائد زہد ابن المبارک:۴۲۷۔ حادی الارواح:۲۰۱) ابوعبدالرحمن معافریؒ فرماتے ہیں کہ جنتی کے لیے اس کے استقبال میں دوصفیں بنائی جائیں گی وہ ان لڑکوں اور خادموں کی ان دونوں صفوں کے آخری کناروں کو (طویل صف ہونے کی وجہ سے) نہیں دیکھ سکے گا حتی کہ جب یہ ان کے درمیان سے گذرے گا تویہ غلمان اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے۔ فرشتہ جنت کی سیرکرائے گا: حضرت ضحاکؓ فرماتے ہیں جب مؤمن جنت میں داخل ہوگا تواس کے آگے ایک فرشتہ داخل ہوگا جواس کوجنت کی گلیوں کی سیر کرائے گا اور اس سے کہے گا دیکھ لیں آپ جتنا دیکھ سکتے ہیں، وہ کہے گا میں نے اکثرمحلات چاندی اور سونے کے اور بہت سے ہمدم انیس دیکھے ہیں توفرشتہ اس کوکہے گا یہ سب آپ کے لیے ہیں ؛حتی کہ جب یہ ان کے پاس پہنچے گا تووہ ہردروازہ سے اور ہرجگہ سے اس کا استقبال کریں گے اور کہیں گے ہم آپ کے لیے ہیں، ہم آپ کے لیے ہیں پھروہ فرشتہ اس جنتی کوکہے گا چلئے؛ پھرپوچھے گا آپ نے (اب) کیا دیکھا؟ تووہ کہے گا میں نے اکثررہائش گاہیں خیموں کی شکل میں اور بہت سے ہمدم انیس دیکھے ہیں تووہ کہے گا یہ سب آپ کے لیے ہیں، جب یہ ان کے قریب جائے گا تووہ سب اس کا استقبال کریں گے اور کہیں گے ہم آپ کے لیے ہیں ہم آپ کے لیے ہیں۔ (حادی الارواح:۳۔۱، بحوالہ ابونعیم۔ ترمذی:۲۵۴۶) بے ریش، بے بال، سرمگیں تیس سال کی عمر میں ہوں گے: حدیث: معاذ بن جبلؓ نے جناب رسول اللہﷺ سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا: يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ جُرْدًا مُرْدًا مُكَحَّلِينَ بَنِى ثَلاثِينَ سَنَۃً۔ (مجمع الزوائد:۱۰/۳۹۸، بحوالہ مسنداحمد) ترجمہ:جنتی جنت میں اس حالت میں جائیں گے کہ ان کے جسموں پربال نہیں ہوں گے، ان کی داڑھی بھی نہیں ہوگی، آنکھوں کی پتلیاں اورسرمہ لگانے کی جگہیں سرمگیں ہوں گی، تیس سال کی عمر میں ہوں گے۔ فائدہ:یعنی صرف مردوں اور عورتوں کے سرکے بال ہوں گے باقی جسم بالوں سے صاف ہوگا۔ جنت میں جانے کی اجازت پرخوشی سے عقل جانے کا خطرہ ہوگا: حضرت ابن عباسؓ کے خادم حضرت کثیربن ابی کثیرؒ فرماتے ہیں ہرایک جنتی انسان کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر کیا جائے گا جب جنتی کوجنت کی خوشخبری سنائی جائے گی اور بتایا جاے گا کہ آپ کے لیے جنت کا فیصلہ کیا گیا ہے توفرشتہ اس کے دل پرہاتھ رکھے گا اگروہ ایسا نہ کرے توجوانتہاء کی خوشی اس مؤمن کوپہنچے گی اس خوشی کے مارے جوچیز اس کے سرمیں ہے (یعنی عقل) وہ نکل جائے (اور انسان دیوانہ ہوجاے)۔ (مجمع الزوائد:۱۰/۳۹۸، بحوالہ مسنداحمد) جنت میں داخلہ کے بعد کے اعلانات وانعامات: حدیث:حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: يُنَادِي مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَاتَسْقَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلَاتَمُوتُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَاتَهْرَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَاتَبْأَسُوا أَبَدًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ ﴿ وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمْ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَاكُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ۔ (مسلم، كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا،بَاب فِي دَوَامِ نَعِيمِ أَهْلِ الْجَنَّةِ و قَوْله تَعَالَى،حدیث نمبر:۵۰۶۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:ایک منادی ندا کرے گا تمہارے لیے یہ طے کیا گیا ہے کہ تم صحت مند رہوگے کبھی بیمار نہیں ہوگے اور تمہارے لیے یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ تم زندہ رہوگے کبھی نہیں مروگے اور تمہارے لیے یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہیں ہوگے اور تمہارے لیے یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ نعمتوں ہی میں رہوگے کبھی خستہ حال نہیں ہوگے اللہ تعالیٰ کا اس کے متعلق ارشاد ہے کہ ان (جنت والوں) سے پکار کرکہا جائے گا کہ یہ جنت تم کودی گئی ہے تمہارے اعمال (حسنہ اور عقائد صحیحہ) کے بدلہ میں۔ حدیث:حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزح میں داخل ہوجائیں گے توایک منادی پکار کرکہے گا، اے جنت والو! تمہارے لیے اللہ کے پاس ایک وعدہ ہے وہ پوچھیں گے کونسا وعدہ؟ کیا اس نے ہماری نیکیوں کو وزنی نہیں کیا اور ہمارے چہروں کوروشن نہیں کیا اور ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی؟ تواللہ تعالیٰ اپنا پردہ ہٹائیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے قسم بخدا! اللہ تعالیٰ نے جنت والوں کواپنے دیدار سے زیادہ محبوب کوئی نعمت ایسی عطاء نہیں فرمائی جوجنت والوں کواس سے زیادہ محبوب ہو۔ (مسلم:۱۸۱۔مسنداحمد:۴/۳۳۲) حضرت ابوتمیمہ ہجینیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب ابوموسیٰ اشعریؓ سے سنا جب کہ آپ بصرہ کے منبر پرخطبہ ارشاد فرمارہے تھے، آپ کہہ رہے تھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت والوں کے پاس ایک فرشتہ روانہ کریں گے، وہ فرشتہ پوچھے گا، اے جنت والو! جووعدہ اللہ تعالیٰ نے تم سے کیا تھا اس کوتم سے پورا کردیا؟ تووہ غور کریں گے پھرزیوروں، پوشاکوں، نہروں اور پاکیزہ بیویوں کودیکھیں گے توکہیں گے کہ ہاں اللہ تعالیٰ نے ہم سے جووعدہ کیا تھا اس کوہمارے لیے پورا فرمادیا ہے (فرطِ محبت میں) جنتی یہ بات تین مرتبہ کہیں گے؛ پھردوبارہ دیکھیں گے توجس جس چیز کا وعدہ ان سے کیا گیا تھا اس سے کوئی چیز کم نہیں پائیں گے؛ پھرکہیں گے ہاں (اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ ہم سے پورا فرمایا ہے) تووہ فرشتہ کہے گا کہ ایک نعمت باقی رہ گئی ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ (یونس:۲۶) وہ لوگ جنہوں نے نیک اعمال کئے ان کے لیے الْحُسْنَى اور زِيَادَةٌ ہے سن لو! الْحُسْنَى جنت ہے اور زِيَادَةٌ اللہ تعالیٰ کے چہرہ مبارک کی زیارت اور دیدار ہے۔ (زوائد زہدابن المبارک:۴۱۹۔ تفسیر طبری:۱۱/۶۷) حدیث:حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ جنتیوں سے فرمائیں گے: اے جنت والو! وہ عرض کریں گے: لبیک وسعدیک ہمارے پروردگار، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کیا راضی ہوگئے؟ وہ عرض کریں گے ہم کیوں نہ راضی ہوں؟ جب کہ آپ نے ہمیں وہ کچھ عطاء فرمایا جوآپ نے اپنی مخلوق میں کسی اور کوعطاء نہیں کیا، تواللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے میں تمھیں اس سے بھی افضل نعمت عطاء کرنا چاہتا ہوں، وہ پوچھیں گے، اے ہمارے پروردگار! اس سے زیادہ افضل اور کونسی نعمت ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے میں تم پراپنی رضامندی کونازل کرتا ہوں اب اس کے بعد میں تم پرکبھی ناراضی اور غصہ نہیں کرونگا۔ (بخاری:۴۵۴۹، باب۲، احلال الرضوان، سنن الکبریٰ نسائی۔ حادی الارواح:۲۱۷) کافروں کی منازل جنت مسلمانوں کووراثت میں دیدی جائیں گی: حدیث: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مَامِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّلهُ مَنْزِلاَنِ مَنْزِلٌ فِي الْجَنَّةِ وَمَنْزِلٌ فِي النَّارِ فَإِذَا مَاتَ فَدَخَل النَّارَ وَرِثَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنْزِلهُ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالى (أُولئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ)۔ ترجمہ:تم میں سے ہرایک آدمی کی دومنزلیں ہیں ایک منزل جنت میں ہے اور ایک دوزخ میں ہے، جب (کوئی کافر) مرجاتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوتا ہے توجنت والے اس کی (جنت کی) منزل کے وارث ہوجاتے ہیں اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہی لوگ ہی وارث ہیں (جوجنت الفردوس کے وارث بنیں گے)۔ جنت کی وراثت سے کون محروم ہوگا: حدیث:حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنْ الْجَنَّةِ۔ (سنن ابنِ ماجہ، كِتَاب الْوَصَايَا،بَاب الْحَيْفِ فِي الْوَصِيَّةِ،حدیث نمبر:۲۶۹۴، شاملہ،موقع الإسلام) ترجمہ:جوشخص اپنے وارث کومیراث دینے سے بھاگے گا اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی میراث کوختم کردیں گے۔ فائدہ:یعنی جوشخص کسی وراث کواس کے حق وراثت سے محروم کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا وارث نہیں بنائیں گے ہاں اگرتوبہ کرلے اور وراث کواس کا حق ادا کردے تومعافی ہوسکے گی۔ جنت میں داخل ہونے کے بعد کلماتِ شکر: حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جنتی جب جنت میں داخل ہوکر اپنے اپنے مقامات پرپہنچ جائیں گے تویہ کہیں گے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ سب تعریفات اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہم سے رنج وغم کودور کیا، اس رنج وغم سے ان کی مراد یہ ہوگی کہ ہم نے میدانِ محشر میں جوہولناکیاں، زلزلے، سختیاں اور کربناکیاں دیکھی ہیں (ان سے محفوظ رہنے اور جنت جیسی پرآسائش منازل میں پہنچ جانے پرہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں) اس کے بعد وہ کہیں گے إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ بے شک ہمارا رب بخشش کرنے والا قدردان ہے اس نے ہمارے بڑے بڑے گناہ معاف کردیے اور ہمارے نیک اعمال کی قدردانی کرتے ہوئے ہمیں آرام وراحت عطاء کی۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۱۲۰) حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں کہ یہ اولیاء کرام دنیا میں (اعمالِ صالحہ کی پابندی اور نفس کشی میں جو) مشقت اٹھاتے اور غمزدہ ہوتے تھے (جب جنت میں پہنچ کران سب پابندیوں سے آزاد اور راحتوں سے لطف اندوز ہوں گے تویہ کہیں گے) الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (تمام تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے ہم سے غم کودور کیا)۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۱۲۰۔ تفسیرابن جریر طبری:۱۰/۱۳۹) حدیث:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب سیددوعالم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَهْلِ النَّارِ يَرَى مَقْعَدَهُ مِنْ الْجَنَّةِ فَيَقُولُ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي فَتَكُونُ عَلَيْهِ حَسْرَةً قَالَ وَكُلُّ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَرَى مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ فَيَقُولُ لَوْلَاأَنَّ اللَّهَ هَدَانِي فَيَكُونُ لَهُ شُكْرًا۔ (مجمع الزوائد:۱۰/۳۹۹، وقال رواہ احمد ورجالہ رجال الصحیح۔ مسنداحمد:۲/۵۱۲۔ تفسیرطبری:۸/۱۳۴) ترجمہ:ہردوزخی کواس کا جنت کا ٹھکانہ دکھایا جائے گا تووہ کہے گا کاش کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت دیتے (اور میں اس میں داخل ہوتا) چنانچہ اس جنت سے محرومی کی حسرت اس پرسوار رہے گی، حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ (اسی طرح سے) ہرجنتی کواس کا دوزخ کا ٹھکانہ دکھایا جائے گا توکہے گا اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت نہ دیتے (تومیں آج اس جگہ دوزخ میں ہوتا) پس یہ اس کے لیے شکر کا مقام ہوگا۔