انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ریاست بنو ہود محمد بن یوسف ۵۰۳ھ میں احمد مستعین بن ابو عامر یوسف موتمن بن ابو جعفر بن ہود عیسائیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سرقسط کے سامنے شہید ہوا تھا، یہ شاہان سر قسط میں چوتھا بادشاہ تھا، اس کی اولاد میں محمد بن یوسف ایک شخص تھا جو موحدین کی حکومت کے آخری ایام میں اندلس کے اندر رئیسانہ زندگی بسر کرتا تھا، اس نے جب دیکھا کہ شیرازہ سلطنت ڈھیلا ہوگیا ہے تو وہ قزاقوں کے ایک گروہ میں شامل ہوکر اُن کا سردار بن گیا اور رفتہ رفتہ اپنی جمعیت کو بڑھامرسد کے عامل ابو العباس کو شکست دے کر مرسیہ پر قابض ہوگیا، اوربہت جلد غرناطہ ،مالقہ، المیریہ وغیرہ پر بھی قابض ہوکر ۶۲۵ھ میں قریباً تمام اسلامی اندلس اُس کے زیرِ فرمان ہوگیا، اسی سال برشلونہ کے عیسائی بادشاہ نے جزیرہ میورقہ ومنورقہ کو فتح کرکے موحدین کے عاملوں کو وہاں سے خارج کردیا، محمد بن یوسف اس کی اس مثال کو دیکھ کرملک میں اور بھی با حوصلہ سردار اُٹھ کھڑے ہوئے ،اور ہر ایک اپنی اپنی الگ حکومت قائم کرنے کی تدابیر میں مصروف ہوگیا، محمد بن یوسف نے یہ دیکھ کر کہ تمام سرداروں پر غالب آنا اوراپنی حکومت پرتمام رعایا کو رضامند کرلینا آسان کام نہیں ہے، ایک درخواست عباسی خلیفۂ بغداد کی خدمت میں روانہ کی اورلکھا کہ میں نے آپ کے نام سے تمام ملک اندلس فتح کرلیا ہے اور میری حکومت یہاں قائم ہوگئی ہے،لہذا نہایت ادب کے ساتھ ملتجی ہوں کہ مجھ کو اس ملک کا والی مقرر فرمایا جائے اور اس ملک کی سندِ حکومت میرے نام کی بھیج دی جائے،خلیفۂ بغداد نے اس درخواست کو تائید غیبی سمجھ کر اندلس کی سندِ حکومت میرے نام کی بھیج دی جائے،خلیفۂ بغداد نے اس درخواست کو تائید غیبی سمجھ کر اندلس کی سندِ حکومت مع خلعت محمد بن یوسف کے سفیر کو عطا کردی،جب خلیفۂ بغداد مستنصر کے پاس سے سندِ امارت آگئی تو ابن ہود یعنی محمد بن یوسف نے غرناطہ کیجامع مسجد میں لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا اورخود عباسی خلیفہ کا خلعت پہن کر اور سیاہ عَلم ہاتھ میں لے کر آیا اور لوگوں کو خلیفہ مستنصر عباسی کا فرمان پڑھ کر سُنایا اورتمام مسلمانوں کو مبارکباد دی کہ خلیفہ نے ہماری درخواست کو منظور فرما کر ہماری سر پرستی منظور فرمالی ہے،اس تدبیر کا یہ اثر ہوا کہ چند روز کے لئے نصر بن یوسف معروف بہ ابن الاحمر اورابو خمیل زیان بن مروینش وغیرہ امراء نے جو ابن ہود یعنی محمد بن یوسف کی مخالف پر آمادہ تھے، یہ دیکھ کر کہ خلیفہ بغداد کے فرمان کی وجہ سے لوگ اس طرف مائل ہیں،خموشی اختیار کی اور بظاہر اُس کی بیعت بھی کرلی،مگر چند ہی روز کے بعد یہ امراء پھر مخالفت پر آمادہ ومستعد ہوگئے اورلڑائیاں یعنی خانہ جنگی کا سلسلہ جاری ہوا، عیسائیوں نے اس خانہ جنگی کو دیکھ کر مسلمانوں کے شہروں پر قبضہ کرنا شروع کردیا ؛چنانچہ ۷۲۷ھ میں انہوں نے شہر مریدہ پر جو قرطبہ کے بعد سب سے بڑا شہر تھا قبضہ کرلیا،اہل مریدہ نے محمد بن یوسف کو اطلاع دی، محمد بن یوسف فوراً فوج لے کر مریدہ پہنچا اور الفانسو نہم بادشاہ لیون پر شہر کے قریب بلا تامل حملہ آور ہوا، اس لڑائی میں اس کو عیسائی فوج سے شکست کھانی پری،شکست خوردہ واپس ہوا اورمرسیہ کو اپنا دارالسلطنت بناکر حکومت کرنے لگا۶۲۹ھ میں ابن الاحمر نے اپنے آپ کو اندلس کی فرماں روائی کا حق دار ظاہر کرکے سریس وجیاں وغیرہ شہروں کو فتح کرلیا، اسی اثناء میں ابو مروان نامی ایک سردارنے اشبیلیہ پر قبضہ کرلیا، ابن الاحمر نے ابو مروان کے ساتھ دوستی واتحاد پیدا کرکے اپنی قوت کو بڑھایا،۶۳۲ھ میں ابن الاحمر اشبیلہ میں دوستانہ داخل ہوا اور ابو مروان کو قتل کرکے اُس کے مقبوضہ علاقہ پر قبضہ کرلیا، اشبیلیہ کی رعایا نے چند روز کے بعد ناخوش ہوکر ابن الاحمر کو خارج کردیا اور محمد بن یوسف کی فرماں برداری قبول کی،محمد بن یوسف نے ایک سردار ابن الرمیمی نامی کو اپنا وزیر ومدار المہام بناکر اکثر امورِ سلطنت اُسی کے سپرد کررکھے تھے،آخر میں اس نے ابن الرمیمی کو المیریہ کا حاکم بنادیا تھا، ابن الرمیمی نے المیریہ میں بغاوت اختیار کی،محمد بن یوسف اُس کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوا، ابھی راستے ہی میں تھا کہ ابن الرمیمی کے جاسوسوں نے اُس کو رات کے وقت موقع پاکر خیمے کے اندر گلا گھونٹ کر مار ڈالا،یہ واقعہ ۲۴جمادی الثانی ۶۳۵ھ کو وقوع ؛ذیر ہوا، اس کے بعد ابن الرمیمی المیریہ کا خود مختار مستقل بادشاہ بن گیا، مرسیہ کی حکومت محمد بن یوسف کی اولاد کے قبضے میں رہی جنہوں نے ابن الاحمر کی اطاعت قبول کرلی تھی ۶۵۸ھ میں اس خاندان کا خاتمہ ہوگیا۔ بنو ہود کے علاوہ ابن الاحمر،ابن مروان، ابن خالد،ابن مروینش وغیرہ بہت سے چھوٹے چھوٹے رئیسوں نے اپنی الگ الگ ریاستیں قائم کیں، ابن الاحمر نے فردی نند بادشاہ کیٹسل وطلیطلہ سے ابتداءً اتحاد قائم کیا اوردوسرے چھوٹے چھوٹے مسلمان رئیسوں کی تباہی میں فردی نند شریک کار رہا ،اُدھر بادشاہ برشلونہ نے الگ مسلمانوں پر چڑھائیاں شروع کررکھی تھیں، عیسائی اول دو مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے پھر ایک کے طرفدار ہوکر دوسرے کو برباد کرادیتے، اس کے بعد پھر اس سے لڑائی چھیڑ دیتے،اور دوسرے مسلمان کو اُس کے مقابلہ پر آمادہ کردیتے، اور ہمیشہ مسلمانوں کے شہروں اور قلعوں پر قابض ہوتے جاتے تھے،اسی سلسلہ میں فردی نند تاث بادشاہ کیسٹل (قسطلہ) نے بتاریخ ۲۳شوال ۶۳۶ھ دارالخلافہ قرطبہ کو فتح کرلیا اوراس عظیم الشان اسلامی شہر کی عظمت و بزرگی کو خاک میں ملا کر اندلس میں عیسائی سلطنت کی بنیاد کو پائیدار واستوار بنادیا، اسی تاریخ سے اندلس میں اسلامی شوکت کا خاتمہ سمجھنا چاہئے،ابن الاحمر نے یہ دانائی کا کام کیا کہ فردی نند ثالث سے صلح کرکے اور بغض شہر وقلعے اُس کو دے کر اپنی طرف سے عرصہ تک مطمئن رکھا، اوراس فرصت میں غرناطہ ،مالقہ،لارقہ،المیریہ،جیان وغیرہ پر اپنا قبضہ جمالیا اورایک ایسی مضبوط ریاست جزیرہ نمائے اندلس کے قریباً چوتھائی رقبہ پر قائم کرلی جو آئندہ ڈھائی سو سال تک قائم رہی،اب بجائے تمام جزیرہ نمائے اندلس کے صرف جنوبی ومشرقی اندلس میں اسلامی حکومت محدود رہ گئی اوربجائے قرطبہ کے غرناطہ اسلامی اندلس کا دارالحکومت قرارپایا،اس چھوٹی سی اسلامی سلطنت کا رقبہ بچاس ہزار میل مربع یعنی کُل جزیرہ نما کا چھوتھائی تھا، اب ذیل میں سلطنتِ غرناطہ کے حالات بیان ہوتے ہیں، اس کے بعد اندلس کی اسلامی تاریخ ختم ہوجائے گی۔