انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عمار بن یاسرؓ اورحسنؓ بن علیؓ کوفہ میں حضرت علیؓ نے اشتر وابن عباسؓ کے واپس آنے پر اپنے بیٹے حسن اور عمار بن یاسرؓ کو کوفہ کی جانب روانہ کیا،جب یہ دونوں کوفہ میں پہنچے تو ان کے آنے کی خبر سُن کر ابو موسیٰ مسجد میں آئےحسن بن علیؓ سے معانقہ کیا اور عمار بن یاسرؓ سے مخاطب ہوکر کہا کہ تم نے حضرت عثمان غنیؓ کی کوئی امداد نہیں کی اور فاجروں کے ساتھ شامل ہوگئے ،عمارنے کہا: نہیں میں نے ایسا نہیں کیا اتنے میں حضرت حسن بول پڑے کہ لوگوں نے اس معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں کیا اور اصلاح کے سوا ہمارا دوسرا مقصود نہیں ہے اور امیر المومنینؓ اصلاح امت کے کاموں میں کسی دوسرے سے ڈرتے نہیں ہیں،ابو موسیٰ نے نہایت ادب کے ساتھ جواب دیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں،آپ نے سچ فرمایا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عنقریب فتنہ برپا ہونے والا ہے، اُس میں بیٹھا ہوا شخص کھڑا ہونے والے سے، کھڑا ہوا پیادہ چلنے والے سے،پیادہ چلنے والا سوار سے بہتر ہوگا، اورکل مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں،ان کا خون و مال حرام ہے،عمار بن یاسرؓ کو ابو موسیٰ کی باتوں سے کچھ ایسی برا فروختگی ہوئی کہ وہ ابو موسیٰ کو گالی دے بیٹھے ابو موسیٰ گالی سُن کر خاموش ہوگئے ،مگر حاضرین میں سے کسی نے ترکی بتر کی جواب دیا،بات بڑھی اور لوگ عمار پر ٹوٹ پڑے، مگر ابو موسیٰ نے عمار کو بچا لیا۔ انہیں ایام میں حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نے بصرہ سے اہل کوفہ کے نام خطوط روانہ کئے جن میں لکھا تھا کہ اس زمانہ میں تم لوگ کسی کی مدد نہ کرو،اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ رہو یا ہماری مدد کرو، کہ ہم عثمان ؓ کےخون کا بدلہ لینے نکلے ہیں،اسی جلسہ میں زید بن صوحا نے ام المومنین کا خط مسجد میں لوگو ں کو پڑھ کر سنانا شروع کیا، ثبت بن ربعی گالی دے بیٹھا، اس سے حاضرین میں ایک جوش پیدا ہوگیا اور علانیہ حضرت ام المومنینؓ کی طرف داری کا اظہار کرنے لگے،ابو موسیٰ اس جوش وخروش کو کم کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ فتنہ کے فرو ہونے تک گھروں میں بیٹھ رہو،میری اطاعت کرو، عرب کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلہ بن جاؤ تاکہ مظلوم تمہارے سائے میں آکر پناہ گزین ہوں،تم لوگ اپنے نیزوں کی نوکیں نیچے کرلو اوراپنی تلواروں کو نیام میں کرلو۔ ان باتوں کو سُن کر زید بن صوحان نے کھڑےہو کرلوگوں کو حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ کی مددکرنے کی ترغیب دی،اس کے بعد اور کئی شخص یکے بعد دیگرے تائید کرنےکو کھڑےہوگئے، اس کے بعد عمار بن یاسرؓ بولے کہ لوگو! حضرت علیؓ نے تم کو حق دیکھنے کے لئے بلایا ہے،چلو اوراُن کے ساتھ ہوکر لڑو،پھر حضرت حسن بن علیؓ نے فرمایا: لوگو! ہماری دعوت قبول کرو،ہماری اطاعت کرو اورجس مصیبت میں تم اورہم سب مبتلا ہوگئے ہیں،اس میں ہماری مدد کرو،امیر المومنینؓ کہتے ہیں کہ اگر ہم مظلوم ہیں تو ہماری مدد کرو،اور اگر ہم ظالم ہیں تو ہم سے حق لو،وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ طلحہؓ وزبیرؓ نے سب سے پہلے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور سب سے پہلے بد عہدی کی،حضرت حسن بن علیؓ کی تقریر سے لوگوں کے دلوں پر ایک فوری اثر ہوا اورسب نے اپنی آمادگی ظاہر کردی،عمار بن یاسرؓ اورحضرت حسنؓ کو روانہ کرنے کے بعد حضرت علیؓ نے مالک اشتر کو بھی روانہ کردیا تھا،اشتر کوفہ میں اس وقت پہنچا جبکہ حضرت حسن بن علیؓ تقریر کررہے تھے،اشتر کے آجانے سے اور بھی تقویت ہوئی اور ابو موسیٰ اشعری کی بات پھر کسی نے نہ سنی، حالانکہ وہ آخر تک اپنی اُسی رائے کا اظہار کرتے رہے کہ گوشہ نشینی اورغیر جانب داری اختیار کرو،مالک اُشتر نے پہنچ کر قبائل کو آمادہ کرنے میں خوب کارِ نمایاں کیا،ابو موسیٰ اشعری کو حکم دیا گیا کہ تم کل تک دارالامارت کو خالی کردو۔ غرض یہ کہ حسن بن علیؓ ،عمار بن یاسرؓ،اُشتر کوفہ سے نو ہزار کی جمعیت لے کر روانہ ہوئی جس وقت اہل کوفہ کا یہ لشکر مقام ذی قار کے متصل پہنچا تو حضرت علیؓ نے اُن کا استقبال کیا اوران لوگوں کی ستائش کی،پھر فرمایا کہ اے اہل کوفہ ہم نے تم کو اس لئے تکلیف دی ہے کہ تم ہمارے ساتھ ہوکر اہلِ بصرہ کا مقابلہ کرو،اگر وہ لوگ اپنی رائے سے رجوع کرلیں تو سبحان اللہ،اس سے بہتر اور کئی بات نہیں اور اگر انہوں نے اپنی رائے سے اصرار کیا تو ہم نرمی سے پیش آئیں گے تاکہ ہماری طرف سے ظلم کی ابتداء نہ ہو،ہم کسی کام کو بھی جس میں ذرا سا بھی فساد ہوگا،بغیر اصلاح نہ چھوڑیں گے،یہ باتیں سننے کے بعد اہل کوفہ بھی حضرت علیؓ کے ساتھ مقام ذی قار میں قیام پذیر ہوگئے،دوسرے دن حضرت علیؓ نے قعقاع بن عمروؓ کو بصرہ کی طرف روانہ کیا اسی مقام ذی قار میں حضرت اویس قرنیؓ مشہور تابعی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔