انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** شرائطِ صحت بیع کے درست ہونے کے لیے کچھ شرطیں عام نوعیت کی ہیں ،جوہر معاملۂ خریدوفروخت کے لیے ضروری ہیں ۱۔بیع ایک خاص مدت کے لیے نہ ہو بلکہ ہمیشہ کے لیے ہو۔ حوالہ عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع وشرط، البيع باطل، والشرط باطل(المعجم الاوسط للطبراني، من اسمه عبد الله ۴۵۱۲،۶۶/۱۰ ) ۲۔مبیع اور ثمن اس طرح متعین اور معلوم ہوں کہ آئندہ اختلاف پیدا ہونے کا امکان نہ ہو۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْأَسْلَمِيِّ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّامَ فَكَانَ يَأْتِينَا أَنْبَاطٌ مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ فَنُسْلِفُهُمْ فِي الْبُرِّ وَالزَّيْتِ سِعْرًا مَعْلُومًا وَأَجَلًا مَعْلُومًا فَقِيلَ لَهُ مِمَّنْ لَهُ ذَلِكَ قَالَ مَا كُنَّا نَسْأَلُهُمْ(ابو داود، في السلف، ۳۰۰۶) ( وَمِنْهَا ) أَنْ يَكُونَ الْمَبِيعُ مَعْلُومًا وَثَمَنُهُ مَعْلُومًا عِلْمًا يَمْنَعُ مِنْ الْمُنَازَعَةِ .فَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمَا مَجْهُولًا جَهَالَةً مُفْضِيَةً إلَى الْمُنَازَعَةِ فَسَدَ الْبَيْعُ(بدائع الصنائع فَصْلٌ في شَرَائِط الصِّحَّةِ في البيوع ۱۵۸/۱۱) بند ۳۔ایسی بیع ہو جس سے کوئی فائدہ ہو، بے فائدہ بیع نہ ہو، مثلاً ایک روپیہ کے بدلہ ایک روپیہ فروخت کیا جائے، یہ درست نہیں، کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں۔ حوالہ لان الشئ اذا خلا عن فائدته لغا(اعلاء السنن حرمة بيع الخمر والميتة ۱۱۱/۱۴) بند ۴۔کوئی شرط فاسد نہ لگائی جائے۔ حوالہ عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع وشرط ، البيع باطل ، والشرط باطل(المعجم الاوسط للطبراني، من اسمه عبد الله ۴۵۱۲،۶۶/۱۰ ) بند شرط فاسد کی حسب ذیل صورتیں ہیں: ۱۔ایسی شرط جس کا پایا جانا اور نہ پایا جانا،دونوں شبہ سے خالی نہ ہو۔ حوالہ عن أبي هريرة قال: "نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر" (صحيح ابن حبان، ذكر الزجر عن بيع الحمل في البطن، والطير في الهواء والسمك في الماء قبل أن يصطاد ۴۹۵۱) بند ۲۔ایسی شرط جو ممنوع اورشرعاًناجائز ہو۔ حوالہ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدة:۲) بند ۳۔ایسی شرط نہ ہو جو تقاضائے عقد کے خلاف ہو اوراس سے تاجر یا خریدار یا خود اس مبیع کا نفع متعلق ہو جس کے اندر مطالبہ کی صلاحیت موجود ہے اور نہ اس کا لوگوں میں تعامل ہو۔ حوالہ عن عَبْد اللَّهِ بْن مَسْعُودٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ اشْتَرَى جَارِيَةً مِنِ امْرَأَتِهِ زَيْنَبَ الثَّقَفِيَّةِ وَاشْتَرَطَتْ عَلَيْهِ إِنَّك إِنْ بِعْتَهَا فَهِىَ لِى بِالثَّمَنِ الَّذِى تَبِيعُهَا بِهِ فَاسْتَفْتَى فِى ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : لاَ تَقْرَبْهَا وَفِيهَا شَرْطٌ لأَحَدٍ.(السنن الكبري للبيهقي، باب الشَّرْطِ الَّذِى يُفْسِدُ الْبَيْعَ ۱۱۱۴۵) الاصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لاحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا(الدر المختار باب البيع الفاسد ۲۰۴ /۵) بند ۴۔بیع کے رد کرنے کا ابدی اختیار یا تین دنوں سے زائد اختیار کی شرط لگادی جائے۔ حوالہ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانٍ قَالَ هُوَ جَدِّي مُنْقِذُ بْنُ عَمْرٍو وَكَانَ رَجُلًا قَدْ أَصَابَتْهُ آمَّةٌ فِي رَأْسِهِ فَكَسَرَتْ لِسَانَهُ وَكَانَ لَا يَدَعُ عَلَى ذَلِكَ التِّجَارَةَ وَكَانَ لَا يَزَالُ يُغْبَنُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَهُ إِذَا أَنْتَ بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ ثُمَّ أَنْتَ فِي كُلِّ سِلْعَةٍ ابْتَعْتَهَا بِالْخِيَارِ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَإِنْ رَضِيتَ فَأَمْسِكْ وَإِنْ سَخِطْتَ فَارْدُدْهَا عَلَى صَاحِبِهَا(ابن ماجه بَاب الْحَجْرِ عَلَى مَنْ يُفْسِدُ مَالَهُ۲۳۴۶) بند ۵۔مبیع وثمن کی موجودگی کے باوجود اس کی ادائیگی کے لیے مدت مقرر کردی جائے۔ حوالہ عن أَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ(بخاري بَاب مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ۲۲۲۵) بند بیع کے درست ہونے کی کچھ شرطیں ایسی ہیں، جو خاص قسم کے معاملات کے لیے ضروری ہیں اور وہ اس طرح ہیں: ۱۔قیمت اُدھار ہو تو ادائیگی کی مدت کا تعین۔حوالہ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْأَسْلَمِيِّ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّامَ فَكَانَ يَأْتِينَا أَنْبَاطٌ مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ فَنُسْلِفُهُمْ فِي الْبُرِّ وَالزَّيْتِ سِعْرًا مَعْلُومًا وَأَجَلًا مَعْلُومًا فَقِيلَ لَهُ مِمَّنْ لَهُ ذَلِكَ قَالَ مَا كُنَّا نَسْأَلُهُمْ(ابو داود، في السلف، ۳۰۰۶) بند ۲۔اموال ربو یہ(سودی اموال) ہوں تو بدلین میں مماثلث اوریکسانیت ہو اور نقد معاملہ ہو۔ حوالہ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ(مسلم بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا ۲۹۷۰) بند ۳۔سونے چاندی اورسکوں کی باہم خرید و فروخت ہو (جس کو بیعِ صرف کہا جاتا ہے )تو ایک ہی مجلس میں فریقین کا بدلین پر قبضہ ہو۔ حوالہ عن أَبي الْمِنْهَالِ قَالَ سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ وَزَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ عَنْ الصَّرْفِ فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا يَقُولُ هَذَا خَيْرٌ مِنِّي فَكِلَاهُمَا يَقُولُ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ دَيْنًا(بخاري بَاب بَيْعِ الْوَرِقِ بِالذَّهَبِ نَسِيئَةً ۲۰۳۳) عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ(مسلم بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا ۲۹۷۰) بند ۴۔مرابحہ، تولیہ اوروضیعہ میں پہلی قیمت سے واقف ہونا۔ حوالہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ(الانفال:۲۷) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا(مسلم بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا۱۴۶) أماالمواضعۃ، فھی ضد المرابحۃ، وھی بیع بمثل الثمن الأول مع نقصان شیٔ معلوم منہ کما أن المرابحۃ بیع بمثل الثمن الأول مع زیادۃ ربح معلوم، والعلم بالثمن الأول شرط صحۃ ھذہ البیعات کلھا، فإن لم یکن معلوما، فالبیع فاسد إلی أن یعلم فی المجلس، فیختار إن شاء فیجوز، أویترک فیبطل، (اعلاء السنن ، التوليه والمرابحه وجوازها ۲۲۶/۱۴)۔ بند نوٹ: مرابحہ،تولیہ،اور وضیعہ ان تينوں كی تعريف آگے آرہی ہے۔