انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خانہ جنگیاں یعنی انصار کی خانہ جنگیاں تبع کے بعد اوس وخزرج عرصہ تک متحد رہے؛ لیکن پھرخانہ جنگیوں کا ایسا خطرناک سلسلہ شروع ہوا کہ اگراسلام نہ آتا تویہ قوم صفحۂ ہستی سے یقیناً نیست ونابود ہوجاتی، سید سمہووی خلاصۃ الوفا میں لکھتے ہیں: "ثم وقعت بينهم حروب كثيرة لم يسمع في قوم أكثر منها ول أطول"۔ (خلاصۃ الوفا بأخباردارالمصطفی، الفصل الثانی فی منازل الأوس والخزرج:۱/۸۱، شاملہ، موقع الوراق) پھران میں اس قدر لڑائیاں ہوئیں کہ کسی قوم میں ان سے زیادہ اور دیرپا جنگیں نہیں سنی گئیں۔ لڑائیوں کی ابتدا جنگ سمیر سے ہوئی اور تقریباً ایک سو بیس برس تک جاری رہ کر جنگِ بعاث پر اختتام ہوا، جوہجرت سے ۵/سال قبل واقع ہوئی تھی؛ اس طویل زمانہ میں خدا معلوم کتنے معرکے پیش آئے ہوں گے؛ لیکن ان میں سے جوزیادہ مشہور ہیں، تاریخوں میں انہی کاذکر آتا ہے، علامہ ابنِ اثیرایک مقام پر فرماتے ہیں: "وبينها وبين حرب سمير نحو مائة سنة، وكان بينهما أيام ذكرنا المشهور منها وتركنا ماليس بمشهور، وحرب حاطب آخر وقعة كانت بينهم إلايوم بعاث"۔ (الکامل فی التاریخ، یوم البقیع:۱/۲۳۴، مؤلف:ابن الأثیر،شاملہ،موقع الوراق) حرب حاطب اور حرب سمیر میں تقریباً سوبرس کا فرق ہے اور ان دونوں کے درمیان بہت سی لڑائیاں ہوئیں تھیں، جن میں سے ہم نے مشہور لڑائیوں کو درج کیا ہے اور غیرمشہور کوچھوڑ دیا ہے اور حرب حاطب بعاث کے ماسوا سب سے اخیر لڑائی تھی۔ جس جنگ کو علامہ نے سب سے اخیر جنگ قرار دیا ہے، اس کی یہ حالت ہے کہ وہ بھی متعدد جنگوں کا مجموعہ ہے (الکامل فی التاریخ، یوم البقیع:۱/۲۳۴، مؤلف:ابن الأثیر،شاملہ،موقع الوراق) پھران تمام مشہور لڑائیوں کی نسبت کیا کہا جاسکتا ہے جن کے ضمن میں بہت سی چھوٹی لڑائیاں پیش آئی ہونگی اور جن کوہمارے مؤرخین نے قلم انداز کردیا۔ جنگِ سمیر انصار کی سب سے پہلی جنگ، جنگِ سمیر ہے، اس کا سبب یہ ہوا کہ مالک بن عجلان سالمی کا کعب ذبیانی حلیف بناتھا، ایک روز وہ بازار قینقاع میں پھررہا تھا کہ ایک غطفانی کی آواز سنی کہ میرا گھوڑا وہ لے سکتا ہے جویثرب کا سب سے بڑا شخص ہو، کعب نے اپنے حلیف کی سفارش کی، کسی نے احیحہ بن الحلالح اوسی کا نام پیش کیا اور بعضو ں نے ایک یہودی کی نسبت کہا کہ وہ مدینہ کا سب سے بڑا شخص ہے، اس بنا پر گھوڑے کا مستحق وہی ہے، غطفانی نے گھوڑا مالک بن عجلان کو دیدیا، اس پرکعب نے فخراً کہا؛ کیوں میں نہ کہتا تھا کہ مدینہ میں مالک سے بڑھ کر کوئی نہیں، عمروبن عوف کا ایک شخص جس کا نام سمیر تھا، یہ گفتگو سن رہا تھا، غصہ سے لال پیلا ہوگیا اور گالیاں دیتا ہوا چلا گیا، کعب دوسرے بازار میں جوقبا میں لگتا تھا، ایک مرتب گیا توچونکہ یہ عمرو بن عوف کا محلہ تھا، سمیر نے موقع پاکر اس کوقتل کیا، مالک بن عجلان کو خبر ہوئی تواس نے عمروبن عوف کے پاس کہلا بھیجا کہ قاتل ہمارے حوالہ کردو، عمروبن عوف نے انکار کیا اور کہا تم دیت لے سکتے ہو، مالک نے اس شرط پر منظور کیا کہ دیت پوری دینا ہوگی؛ چونکہ انصار میں حلیف کی دیت نصف دیجاتی تھی، عمروبن عوف نے نہایت شدت سے انکار کیا ،مالک کواصرار تھا اس بناء پر لڑائی کی تیاریاں ہوئیں، جس میں انصار کے تمام قبیلے شریک ہوگئے، دومرتبہ نہایت معرکہ کا رن پڑا، اخیر میں اوس نے فتح پائی اور مالک کوکہلا بھیجا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ منذر بن حرام نجاری (حضرت حسانؓ کے دادا) پرچھوڑ دینا چاہیے، منذر نے کہا کہ اس مرتبہ تم مالک کوپوری دیت ادا کردو، آئندہ پھراپنے قدیم دستور کے مطابق دینا، دونوں فریق نے اس رائے کوپسند کیا اور دیت ادا کردی گئی؛ لیکن دلوں میں جوغبار اورکدورت پیدا ہوگئی تھی وہ کسی طرح دفع نہیں ہوسکتی تھی، اس لیے چند ہی روز کے بعد دوسری لڑائی کا افتتاح ہوا۔ جنگ کعب بن عمرو کعب بن عمرومازنی نے جوبنونجار سے تھا، بنی سالم میں شادی کی تھی اور اپنی سسرال اکثر آیا جایا کرتا تھا، احیحہ بن جلاح سردار حجمعبا (اوس) نے چند آدمیوں کو اس کے قتل پر آمادہ کیا اور کامیابی حاصل کی، کعب کے بھائی عاصم کواطلاع ہوئی تواس نے حجمعبا کواعلانِ جنگ دیدیا اور حایہ میں نہایت سخت لڑائی ہوئی، جس میں حجمعبا نے شکست کھائی، احیہ بھاگ گیا، عاصم نے تعاقب کرکے اس پر تیر چلایا، احیحہ قلعہ کے اندر جاچکا تھا، وہ تیر اس کے بھائی کولگا اوروہ مرگیا، عاصم کو اب بھی چین نہ تھا، اس لیے احیحہ کی گھات میں لگا رہا۔ احیہ کو شبخون مارنے کی تجویز سوجی، سلمیٰ بنت عمرو اس کی بیوی خاندان نجار سے تھی، اس نے ایک رات موقع پاکر اپنی قوم کومطلع کردیا اور بنونجار ہتھیاروں سے آراستہ ہوگئے، صبح اُٹھ کر احیحہ اور بنونجار میں مڈبھیڑ ہوگئی اور تھوڑی دیر لڑائی رہی، احیحہ کوسلمہ کی نسبت پتہ لگ چکا تھا،اس لیے اس کوزدوکوب کرکے اپنے نکاح سے علیحٰدہ کردیا۔ جنگِ سرارۃ اس کے بعدعمروبن عوف اور حارث بن خزرج میں نہایت معرکے کی ایک لڑائی ہوئی، بنی حارث کے ایک شخص نے بنی عمرو کے ایک شخص کو قتل کیا تھا، بنی عمرو اس کی فکر میں تھے، ایک روز موقع پاکر اس کومارڈالا، بنوحارث نے جنگ کا اعلان کیا اور سرارۃ میں دونوں فوجیں جمع ہوئیں، اوس پر حضیربن سماک (حضرت اسیدؓ کے والد) اور خزرج پر عبداللہ بن ابی بن سلول افسر تھا، چاردن تک جنگ جاری رہی جس میں اوس ہزیمت اُٹھاکر واپس گئے۔ جنگِ حصین بن اسلت حصین بن اسلت وائلی (اوس) اورقبیلہ مازن بن نجار کے ایک آدمی میں کچھ جھگڑا ہوا اور حصین نے اس کو قتل کردیا، بنومازن کوخبرہوئی تووہ اس کے پیچھے دوڑے اور گھیر کرمارڈالا، حصین کے بھائی ابوقیس بن اسلت نے بنووائل کوابھارا، تمام اوس اس کی حمیت پر کمربستہ ہوگیا، ادھرمازن کی طرف سے خزرج نے ساتھ دیا اور دونوں قبیلے نہایت جوش سے لڑے اور بہت آدمی کام آئے، اخیر میں اوس نے شکست کھائی۔ جنگِ ربیع ربیع ظفری (اوس) مالک بن نجار کے کسی آدمی کی زمین پر سے گزررہا تھا، اس نے منع کیا؛ لیکن ربیع نے نہ مانا اور اس کومارڈالا، اس پر دونوں قبیلے جمع ہوگئے اور ایسا کشت وخون ہوا کہ کبھی نہ ہوا تھا، اس میں بنونجار نے شکست کھائی۔ جنگِ فارع بنونجار کے ایک شخص نے قبیلۂ قضاعہ (بلی) کا ایک غلام پایا تھا، جس کا چچا معاذ بن نعمان اوسی (والد حضرت سعدؓ) کے پڑوس میں رہتا تھا، ایک دن وہ اپنے بھتیجے کودیکھنے آیا تونجاری نے اس کوقتل کردیا، معاذ نے کہا کہ بنونجار یادیت دیں یاقاتل کومیرے حوالہ کریں، بنونجار نے انکار کیا، اس لیے حضرت حسانؓ کے قلعہ فارع کے سامنے دونوں میں لڑائی ہوئی؛ چونکہ عبدالاشہل کا خیال تھا کہ دیت نہ ملنے کی صورت میں عامر بن اطنابہ کوقتل کریں گے اور عامرخزرج کے ممتازاشخاص میں تھا، اس لیے عامر نے دیت خود ادا کی اور دونوں قبیلوں میں مصالحت ہوگئی، عامر نے اس کے متعلق کچھ اشعار بھی لکھے ہیں جونہایت بہتر ہیں۔ جنگِ حاطب اس کوجنگ جسر بھی کہتے ہیں، جنگ سمیر کے تقریباً سوبرس بعد ہوئی، اس کا سبب یہ ہوا کہ حاطب بن قیس اوسی کے ہاں قبیلہ ثعلبہ (ذبیان) کاایک شخص مہمان اترا تھا، ایک روز وہ بازار قینقاع میں گھوم رہا تھا کہ ابن فسحم (یزید بن حارث خزرجی) نےایک یہودی سے کہا میں تم کو اپنی چادردوں گا، تم اس ثعلبی کو یہاں سے نکال دو، یہودی نے چادر لے کر اس کو اس بری طرح نکالا کہ بازار کے تمام لوگوں نے اس کی آواز سنی، ثعلبی نے اپنے میزبان کوپکارا کہ حاطب تمہارے مہمان کی بڑی ذلت ہوئی، حاطب نے جوشِ غضب میں اس یہودی کا سراڑادیا، ابن فسحم کومعلوم ہوا توحاطب کا تعاقب کیا، حاطب اپنے قبیلہ کے کسی شخص کے ہاں چھپ گیا؛ لیکن ابن فسحم کوتسکین نہیں ہوئی، بنی معاویہ (اوس) کاایک شخص چلاآرہا تھا، اس کوقتل کردیا، اس پر اوس وخزرج میں بنوحارث بن خزرج کے پل پر ایک جنگِ عظیم برپا ہوئی، خزرج کا لشکر عمروبن نعمان بیاضی کے تحت میں تھا اور اوس کی زمام حضیربن سماک اشہلی کے ہاتھ میں تھی؛ چونکہ ان لڑائیوں کاچرچا مدینہ کے آس پاس کی تمام آبادیوں میں پھیل چکا تھا، اس لیے عینیہ بن حصن اور خیار بن مالک فزاری مدینہ میں آئے ہوئے تھے کہ کسی صورت سے ان دونوں قبیلوں میں صلح ہوجائے، انہی ایام میں یہ لڑائی پیش آگئی عینیہ اور خیار دونوں میدان جنگ میں موجود تھے، جس جوش وخروش سے دونوں قبیلے معرکہ آرا ہوئے، اس سے معلوم ہوا کہ صلح ناممکن ہے، اس لڑائی میں میدان خزرج کے ہاتھ رہا، اس کے بعد چند اور لڑائیاں ہوئیں، جودرحقیقت اسی کا ضمیمہ تھیں؛ چنانچہ: جنگِ ربیع سفح کے ایک گوشہ میں دیوارِ ربیع کے پاس اوس وخزرج میں ایک نہایت شدت کا معرکہ ہوا، علامہ ابنِ اثیر لکھتے ہیں: "فاقتتلوا قتالاً شديداً حتى كاد يفني بعضهم بعضاً"۔ (الکامل فی التاریخ، یوم البقیع:۱/۲۳۴،شاملہ،موقع الوراق) یہ لوگ نہایت سخت لڑائی لڑے؛ یہاں تک کہ ایک دوسرے کوفنا کردینے پر بالکل تل گئے تھے۔ جوش کا یہ عالم تھا کہ جب اوس شکست کھاکر بھاگے تودستور کے خلاف خزرج نے ان کے گھروں تک ان کا پیچھا کیا، اس پر اوس نے امان چاہی؛ لیکن بنونجار نے امان دینے سے انکار کیا، اس کے بعد اوس قلعہ بند ہوگئے، اس وقت خزرج نے مصالحت منظور کی، اس معرکہ میں قبیلۂ خزرج میں سے سوید بن صامت اور اوس میں سے ابن سلت اور صخربن سلمان بیاضی زیادہ نمایاں تھے۔ جنگِ بقیع یہ لڑائی بقیع الغرقد میں ہوئی، ابوقیس بن اسلت وائلی اوس کی فوجوں کاسردار تھا، اس میں اس نے فتح پائی، اس کے بعد ابوقیس نے قبیلۂ اوس کوجمع کرکے کہا کہ میں جس قوم کا سردار ہوتا ہوں، وہ شکست کھاتی ہے، اس لیے تم کسی اور شخص کوسردار منتخب کرلو؛ چنانچہ سب نے بالاتفاق حضیرالکتائب اشہلی کوسردار لشکر بنایا، حضیر نے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی اور ہوشیاری سے ادا کئے؛ چنانچہ جب قبا میں عرس کے پاس دونوں قبیلوں میں جنگ ہوئی تومحض حضیر کی تدبیر وسیاست کی بدولت اؤس نے فتح حاصل کی اور اس شرط پر صلح ہوئی کہ مقتولین کا شمار کیا جائے جس کے زیادہ نکلیں وہ منہا کرنے کے بعد باقی کی دیت لے لے؛ چنانچہ اؤس کے ۳/آدمی زیادہ تھے، قبیلۂ خزرج نے دیت کے عوض رہن کے طور پر اؤس کو۳/غلام دیئے اوس نے غلاموں کوقتل کرڈالا اور معاہدۂ سابق ٹوٹ گیا۔ جنگ فجار اوّل خزرج کواوس کی یہ پیمان شکنی حدرجہ ناگوار ہوئی اور مدینہ کے باغات میں نہایت شدت کا رن پڑا، خزرج کا سپہ سالار عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اؤس کا ابوقیس بن اسلت تھا، اس معرکہ میں قیس بن خطیم نے بڑی جانبازی دکھائی تھی؛ یہاں پر یہ بتلادینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ فجار اس کے علاوہ ہے، جوکنانہ اور قیس میں برپا ہوئی تھی اور جوتمام عرب میں مشہور ہے۔ جنگ معبس اور مضرس معبس اور مضرس دودیواریں ہیں، جن کی آڑ میں بالترتیب اوس اور خزرج نے چند دنوں تک جنگیں کیں، اس میں اوس نے ایسی شکست کھائی کہ اس سے پہلے کبھی نہ کھائی تھی، یہاں تک کہ ان کے لیے گھروں اور قلعوں میں چھپنے کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہ رہ گیا، عمروبن عوف اور اؤس مناۃ نے جداگانہ صلح کرنی چاہی؛ لیکن عبدالاشہل اور ظفر نے انکار کیا اور کہا کہ ہم کوخزرج سے پورا بدلہ لے کر مصالحت کرنا چاہیے، خزرج کومعلوم ہوا توانھوں نے اشہل اور ظفر کوقتل وغارت کی دھمکی دی، جس کی وجہ سے اؤس کااکثر حصہ مدینہ چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا۔ ادھر بنوسلمہ نے عبدالاشہل کی ایک زمین کوجس کا نام "رعل" تھا لوٹ لیا اور دونوں قبیلوں میں لڑائی شروع ہوگئی، سعد بن معاذؓ رئیس قبیلۂ اؤس کے سخت چوٹی آئی، وہ عمربن جموع خزرجی کے ہاں اٹھاکر لائے گئے، عمرو نے ان کوپناہ دی اور خزرج کو"رعل" کے جلانے اور درختوں کے کاٹنے سے منع کیا؛ چونکہ اؤس لڑتے لڑتے بہت کمزور ہوگئے تھے، اس لیے وہ عمرہ کے بہانہ سے مکہ گئے اور قریش سے حلف کا سلسلہ قائم کیا، ابوجہل موجود نہ تھا، اس کومعلوم ہوا توقریش کے اس فعل کوبرا کہا اور بولا تم نے اگلے لوگوں کاقول نہیں سنا؛ باہرکے آنے والے گھروالوں پر تباہی لاتے ہیں اور جودوسروں کواپنے ہاں بلاکر ٹھہراتا ہے وہ اپنا ملک کھوبیٹھتا ہے، یہ لوگ طاقتور اور کثیرالتعداد ہیں، قریش نے کہا پھراب حلف منقطع کرنے کی کیا صورت ہے؟ ابوجہل نے کہا یہ کام میں کئے دیتا ہوں؛ چنانچہ وہاں سے اُٹھ کراؤس کے آدمیوں کے پاس گیا اور کہا میں نے سنا ہے کہ تم قریش کے حلیف بنے ہو اور میں اس کوپسند کرتا ہوں؛ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہماری لونڈیاں بازار میں پھرتی ہیں اور جوچاہتا ہے ان کوبازار میں مارپیٹ لیتا ہے تم یہاں آکر رہوگے توجوحشر ہماری عورتوں کا ہوتا ہے وہی تمہاری عورتوں کا بھی ہوگا؛ اگرتم یہ ذلت گوارا کرسکتے ہوتو خوشی سے آؤ؛ ورنہ حلف منقطع کردو؛ چونکہ انصار میں حددرجہ غیرت تھی، اس لیے سب نے انکار کیا اور حلف کورد کرکے واپس چلے گئے۔ جنگ فجار ثانی قریش کی طرف سے مایوسی ہوئی تواؤس نے قریظہ اور نضیر سے حلیف بننے کی درخواست کی، خزرج کومعلوم ہوا توانہوں نے یہود کواعلانِ جنگ دے دیا، یہود نے کہلا بھیجا کہ ہم کویہ منظور نہیں اور ضمانت کے لیے خزرج کے پاس ۴۰/غلام بھیج دیئے اور معاملہ دب گیا۔ ایک دن زیدبن فسحم خزرجی نے نشہ کی حالت میں چند اشعار پڑھے جن میں اس واقعہ کا نہایت ذلت آمیز طریقہ سے ذکر کیا، یہود کوخبر ہوئی توسخت غضبناک ہوئے اور کہا: "ہم اتنے بے غیرت نہیں" یہ کہہ کر اؤس کواپنا حلیف بنالیا، خزرج نے سنا توچند غلاموں کے علاوہ باقی سب کوقتل کرڈالا اور اؤس، یہود اور خزرج کے مابین ایک سخت لڑائی ہوئی۔ بعض لوگوں نے اس کا اور سبب بیان کیا، جوبظاہر زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ بنوبیاضہ کورہنے کے لیے کوئی عمدہ جگہ نہ ملی تھی، عمروبن نعمان بیاضی نے ان سے قسم کھاکر کہا کہ میں تم کو رہنے کے لیے قریظہ اور نضیر کے مقامات دلاؤں گا اور یاپھر ان کے غلاموں کوقتل کرڈالوں گا؛ چونکہ ان لوگوں کی سکونت مدینہ کے بہترین حصہ میں تھی، اس لیے عمرو نے کہلا بھیجا کہ تم ان مقامات کوہمارے لیے خالی کردو یہود نے اس کوعملاً تسلیم کرلینا چاہا؛ لیکن کعب بن اسد قرظی نے کہا، تم اپنے گھروں کی حفاظت کرو اور غلاموں کوقتل کرنے دو، اس پر تمام یہودی متفق ہوگئے اور عمرو کوجواب دیا کہ ہم اپنے گھروں کونہیں چھوڑ سکتے، عمرو نے یہ دیکھ کر غلاموں کے قتل کا فیصلہ کرلیا، عبداللہ بن ابی بن سلول نے منع کیا اور کہا کہ یہ گناہ اور ظلم ہے اور تم کو میں دیکھتا ہوں کہ مقتول ہوکر چار آدمیوں پر لدے چلے آرہے ہو؛ لیکن عمرو نے نہ مانا اور اس کے قبضہ میں جتنے غلام تھے سب کوقتل کرادیا، ابن ابی اور اس کے طرفداروں کے پاس جوغلام تھے رہا کئے گئے؛ چنانچہ محمدبن کعب قرظی کا دادا سلیم بن اسد انہی لوگوں میں تھا۔ جنگ بعاث اب قریظہ اور نضیر خزرج کی مخالفت پربالکل تل گئے اور اؤس کے ساتھ نہایت مستحکم عہدوپیمان کرکے لڑائی کا بندوبست کرنا شروع کیا آس پاس کے یہودیوں کو جنگ پر ابھارا اوس نے اپنے حلیف مزنیہ سے مددطلب کی اور۴۰ روز تک جنگ کا سامان مہیا کیا،خزرج کو معلوم ہواتو انہوں نے بھی لڑائی کی تیاریاں کیں اوراپنے حلفاء اشجع اورمہینہ کو مددپر آمادہ کیا،غرض اس سروسامان سے بعاث کے مقام میں جو بنو قریظہ کے علاقہ میں شامل تھا،ایک نہایت خونریز جنگ ہوئی جس میں اولاً تو اوس وخزرج نہایت پامردی سے لڑے لیکن پھر اوس نے ہمت ہار کر بھاگنا شروع کیا،یہ دیکھ کر حضیرالکتائب جو اوس کا سپہ سالار تھا گھٹنے ٹیک کر کھڑا ہوگیانیزہ کی نوک پیر میں چھیدلی اورپکارا ہائے اونٹ کی طرح ہاتھ پیر کٹ گئے،گروہ اوس! اگر تم مجھ کو بچاسکتے ہو تو بچاؤ خدا کی قسم! میں بغیر قتل ہوئے یہاں سے نہ جاؤں گا،اس آواز کا کان میں پڑنا تھا کہ عبدالاشہل کے دولڑکے محمود اوریزید مدد کو پہنچ گئے اورلڑکر قتل ہوئے۔ ایک تیر عمروبن نعمان بیاضی سردار خزرج کولگا اوروہ مرگیا،عبداللہ بن ابی اس جنگ میں بالکل ناطر فدارتھا،وہ لڑائی کی خبریں لینے گیا تو دیکھا کہ عمروبن نعمان کی لاش چار آدمی اٹھائے ہوئے چلے آرہے ہیں بولا ذق وبال البغی:یعنی اب اپنے ظلم کا مزہ چکھ! عمرو کے قتل ہونے سے خزرج کے قدم ڈگمگاگئے اوروہ فرار ہونے لگے اوس نے یہ سراسمیگی دیکھ کر تمام خزرج کو تلوار کے گھاٹ اتارنا شروع کردیا،اتنے میں ایک آواز آئی کہ گروہ اوس! اپنے بھائیوں کے قتل سے باز آؤ کیونکہ ان کا رہنا لومڑیوں کے رہنے سے بہتر ہے،اوسیوں نے یہ سن کر ہاتھ کھینچ لیے؛لیکن قریظہ اورنضیر کو یہ فقرہ باز نہیں رکھ سکتا تھا،اس لئے انہوں نے لوٹ مار برابر جاری رکھی،اوس حضیر کو میدان سے زخمی اٹھالے گئے اورخزرج کے مکانات اورباغات میں آگ لگادی،اس موقع پر بنو سلمہ کے مکانات اورجائدادیں سعد بن معاذ کی وجہ سے تمام آفتوں سے محفوظ رہیں۔ جنگ بعاث،انصار کی مشہورجنگوں میں سب سے آخری جنگ تھی اورہجرت سے ۵سال قبل واقع ہوئی تھی،ان لڑائیوں کی بدولت انصار کے دونوں قبیلے جس درجہ کمزور ہوگئے تھے،اس کو حضرت عائشہؓ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ (صحیح بخاری:۱/۵۴۳،باب القسامۃ فی الجاہلیۃ) كَانَ يَوْمُ بُعَاثَ يَوْمًا قَدَّمَهُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ افْتَرَقَ مَلَؤُهُمْ وَقُتِلَتْ سَرَوَاتُهُمْ وَجُرِّحُوا فَقَدَّمَهُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دُخُولِهِمْ فِي الْإِسْلَامِ (صحیح البخاری،باب مناقب الانصار،حدیث نمبر:۳۴۹۳) جنگ بعاث کو خدااپنے رسول کے لیے کرایا تھا؛چنانچہ آنحضرتﷺ آئے توانصار کے معززین متفرق اورروسا قتل ہوچکے تھے اورانصار بہت خستہ اورنزار ہوگئے تھے، اس لئے یہ دن خدانے اپنے رسول پر انصار کے ایمان لانے کیلئے بھیجا تھا۔ حضرت انسؓ عیلان بن جریر اور دوسرے ازدیوں کو یہ واقعات سنایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ تمہاری قوم نے فلاں فلاں جنگ میں فلاں فلاں کام کئے۔ (صحیح بخاری:۱/۵۳۳، باب مناقب الانصار) انصار کی مشہور لڑائیوں کے بعد اب ہم ان کی چند غیر مشہور لڑائیوں کا تذکرہ کرتے ہیں اورچونکہ ان کا سنہ معلوم نہیں اس لئے ان کو کسی خاص ترتیب کے ساتھ نہیں لکھ سکتے۔ سید سمہووی نے انصار کی مشہور جنگوں کے سلسلہ میں جنگِ سرارہ کے بعد جنگ "دیک"(خلاصۃ الوفا:۸۹) کا نام لیا ہے اور دیک کے متعلق لکھا ہے کہ انصار کی ایک جگہ کا نام تھا غالباً یہ "دیک" نہیں بلک "دریک" ہے جس کے متعلق یہ ثابت ہے کہ وہاں اوس وخزرج میں ایک لڑائی ہوئی تھی ،(وفاء الوفاء:۲/۳۰۶) اوراگر ہمارا یہ خیال صحیح ہے تو یہ جنگ بنو خطمہ میں ہوئی ہوگی کیونکہ ان لوگوں کی سکونت گاہ یہیں واقع تھی اوراس میں ایک قلعہ بھی تھا تاہم علامہ ابن اثیر نے یوم الدریک کے عنوان سے کسی معرکہ کا ذکر نہیں کیا اور نہ کسی معرکہ کی نسبت یہ تصریح کی کہ وہ مقام دریک میں برپا ہوا تھا، اس بنا پر ہم "یوم الدریک" کو انصار کی غیر معروف جنگوں میں شمار کرتے ہیں۔ یوم الدریک کے بعد انصار کی چند خانہ جنگیوں کا جستہ جستہ ذکر کیا گیا ہے؛چنانچہ بنو حارثہ (اوس) اورعبدالاشہل میں ایک لڑائی چھڑی تھی، جس میں حارثہ نے بنو ظفر کے ساتھ مل کر عبدالاشہل کو شکست دی اورسماک بن رافع (حضرت اسیدؓ بن حضیر کے دادا) کو قتل کرکے عبدالاشہل کو بنی سلیم میں رہ کر زور وقوت پیدا کرلی تھی؛چنانچہ ان کو لے کر بنو حارثہ پر حملہ کیا اور فتح پانے کے بعد خیبر کی طرف بھیج دیا،بنو حارثہ تقریباً سال بھر تک خیبر میں رہے،پھر حضیر کو خود رحم آیا اور ان کو مدینہ بلالیا اورصلح ہوگئی۔ (خلاصۃ الوفا:۸۵) یہ غالباً یوم السرارہ سے قبل کا واقعہ ہے احیحہ اوربنی عبدالمنذر میں بھی ایک خفیف سی جنگ ہوئی تھی جس میں ان کا دادا مارا گیا تھا اور احیحہ کو اپنا قلعہ جس کا نام واقم تھا اس کی دیت میں دینا پڑا تھا،(خلاصۃ الوفا:۸۶) بنو حجبا نے رفاعہ اورغنم کو بھی قتل کیا تھا اوراس کی وجہ سے ان کو قبا کی سکونت ترک کرنا پڑی۔ (خلاصۃ الوفا:۸۶) واقف اورسلم میں بھی کسی قدر شکر رنجی پیدا ہوگئی تھی۔ (خلاصۃ الوفا:۸۶) بنو سلمہ ایک زمانہ تک متحد ہوکر رہے اورامۃ بن حرام کو اپنا سردار بنایا؛لیکن پھر اس میں اور صخر (بنی عبید) میں جائداد کی بابت نزاع پیدا ہوئی، صخر تلوار لے کر مارنے اٹھا تو بنو عبید اور سواد درمیان میں پڑے اورامۃ کو بچالیا،امۃ نے نذر مانی کہ اس کو ضرور قتل کروں گا، لوگوں کو خبر ہوئی تو صخر کو لےآئے اورامۃ نے کچھ جائداد لے کر اس کا قصور معاف کردیا۔ (خلاصۃ الوفا:۸۶) بنو حبیب اوربنو زریق میں حبیب کے قتل سے مخالفت پیدا ہوگئی تھی جس سے بنو زریق اپنے قدیم مکانات چھوڑ کر چلے آئے۔ (خلاصۃ الوفا:۸۸) بنوغدارہ، مالک بن غضب کے قبیلہ میں تعداد کے لحاظ سے بہت کم تھے اوربایں ہمہ نہایت حریص واقع ہوئے تھے اس بنا پر نبولین یا بنو اجدع میں ایک شخص کو مارڈالا اور مکانات چھوڑ کر عمروبن عوف میں سکونت اختیار کی۔ (خلاصۃ الوفا:۸۸) انہی بنی مالک کی دوشاخوں میں میراث کے متعلق ایک جھگڑا ہواتھا جس کا یہ حشر ہوا کہ دونوں قبیلے بنو بیاضہ کے باغ میں گھس کر اس قدر لڑے کہ کشتوں کے پشتے لگادیئے اورسب اسی جگہ کٹ کر رہ گئے،اس باغ کا نام اسی وجہ سے حدیقۃ الموت مشہور ہوگیا۔ (خلاصۃ الوفا:۸۸) ابن واضح کاتب عباسی نے بعض نام اوربھی لئے ہیں اور وہ یہ ہیں۔ (یعقوبی:۲/۳۷) (۱)یوم الصفینہ: اس کے متعلق لکھا ہے کہ یہ سب سے پہلی جنگ تھی،ممکن ہے کہ صفینہ کسی مقام کا نام ہو اورجنگِ سمیر جو انصار کی سب سے پہلی لڑائی شمار ہوتی ہے وہیں ہوئی ہو۔ (۲)یوم وفاق بنی خطمہ (۳)یوم اطم بنی سالم (۴)یوم ابتروہ،ممکن ہے کہ اس سے حدیقۃ الموت کی لڑائی مراد ہو۔ (۵)یوم الدار (۶)یوم بعاث ثانی،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ بعاث دو مرتبہ ہوئی۔