انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سریہ موتہ کے نتائج اس جنگ کے نتائج یہ نکلے کہ مسلمانو ں کو رومیوں کی طاقت اور طریقہ جنگ کا اندازہ ہوا اور ان کے دلوں سے رومیوں کی طاقت کا خوف نکل گیا ، مسلمانوں کوملک شام کی زمینات اور جغرافیائی حالات کا پتہ چل گیا جس کی بدولت وہ مستقبل میں رومیوں سے نہایت بہادری سے مقابلہ کئے اور اپنی فتوحات کے ذریعہ یکے بعد دیگرے ان کے کئی شہر اور علاقے ان کے قبضہ میں آ گئے ، اس گھمسان کی لڑائی میں جہاں دشمن کی تعداد دو لاکھ تھی اور مسلمان صرف تین ہزار تھے مسلمانوں کابہت کم جانی نقصان ہوا یعنی صرف بارہ مجاہدین شہید ہوئے ، رومیوں کے جانی نقصان کے بارے میں اعداد و شمار نہ مل سکے پھر بھی یہ اندازہ کیا گیا ہے کہ دشمن کا نقصان کئی گنا زیادہ ہوا ، اس لڑائی کے بعد " معان" کا حاکم فردہ بن عمرو جس کاتعلق بنو جذام سے تھا مسلمان ہو گیا اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں تحائف بھیجے ، جب رومی حکام کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اسے قتل کر دیا، موتہ کی لڑائی کے بعد جب مجاہدین مدینہ واپس ہوئے تو شہریوں نے شہر سے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا ، حضور ﷺ نے مجاہدین سے ارشاد فرمایا کہ اپنے بچوں کو اپنی سواریوں پر بٹھا لیں، یہ بھی فرمایا کہ جعفر کے بیٹے کو مجھے دے دو، جب ان کے بیٹے عبداللہ بن جعفر لائے گئے تو اٹھا کر اپنی سواری پر بٹھا لئے۔ کچھ لوگوں نے مدینہ کے قریب مجاہدین کے منہ پر مٹھی بھر کر خاک ڈالی ، وہ کہہ رہے تھے کہ تم نے میدان جنگ سے فرار اختیار کی ہے ، جب یہ بات حضور ﷺ کے گوش گزار ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا" یہ فرارنہیں کرّا رہے ، یعنی پلٹ کر دوسرا حملہ کرنے والے ہیں " (سیرت احمد مجتبیٰ) علامہ شبلی نے ابن اسحق کی روایت پر اعتماد کر کے اس فوج کو شکست خوردہ لکھا ہے اور ان کی واپسی پر ان سب کو بلا امتیاز فراری ہونے کا مستحق ظاہر کیا ہے؛ لیکن جیسا کہ صحیح بخاری جنگ موتہ میں ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ازروئے وحی فرمایا کہ پھراللہ کی ایک تلوار یعنی خالد سیف اللہ نے مسلمانوں کے علم کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دشمن پر غلبہ دیا ، اربابِ سیر اور اہل روایت اس غلبہ کی تشریح میں مختلف ہیں ، ایک فریق کا بیان ہے کہ مسلمانوں کو پوری فتح حاصل ہوئی، دوسرے کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا غلبہ اور فتح یہ ہے کہ مسلمان اس قلتِ تعداد اور کفار اپنی کثرت کے باوجود تھک کر غیر منفصل جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کے مقاملہ سے ہٹ آئے، تیسرا فریق یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کو فتح کفار کے ایک خاص دستہ کے مقابلہ میں حاصل ہوئی اور اس سے مال غنیمت بھی حاصل کیا ، چوتھا بیان یہ ہے کہ مسلما ن کا غلبہ یہ ہے کہ حضرت خالدؓ بن ولید کی قیادت میں اتنے بڑے لشکر کے حملوں کوروک دیااور بہ سلامت پیچھے ہٹ آئے ، ( اس موقع پر فتح الباری ، روض الانف سہیلی اور البدایہ ابن کثیر ملاحظہ کرناچاہئیے)اسی طرح مسلمانوں کی جس فوج کو اپنے اوپر فراری ہونے کا گمان تھا یا مسلمانوں نے ان کو فراری کہا اور حضور ﷺ نے ان کو تسلی دی کہ نہیں تم فراری نہیں بلکہ پھر دوبارہ حملہ کرنے کی نیت سے پیچھے ہٹ آنے والے ہو، اس کی مخاطب پوری اسلامی فوج نہیں؛ بلکہ ان کی فوج کا ایک خاص دستہ تھا جو جلدی کر کے مدینہ چلا آیا تھا ، ( شبلی نعمانی ، سیرۃ النبی جلد اول )