انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت رافعؓ بن خدیج نام ونسب رافع نام،ابو عبداللہ کنیت ،قبیلۂ اوس سے ہیں سلسلۂ نسب یہ ہے،رافع بن خدیج بن رافع بن عدی بن زید جشم بن حارثہ بن حارث بن خزرج بن عمر وبن مالک بن اوس ،والدہ کا نام حلیمہ بنت عروہ بن مسعود بن سنان بن عامر بن عدی بن امیہ بن بیاضہ ہے۔ قبیلۂ اوس میں عبدالاشہل اورحارثہ دو برابر کی طاقتیں تھیں، ان میں جنگ و جدل کا بازار گرم رہتا تھا، اسید بن حضیر کے دادا اسماک بن رافع کو انہی لوگوں نے ایک معرکہ میں قتل کیا تھا اوران کے خاندان کو شہر بدر کردیا تھا، حضیر بن سماک نے بنو حارثہ کا محاصرہ کرکے اپنے باپ کا انتقام لیا اوران کو شکست دے کر خیبر میں جلا وطن کردیا،بنو حارثہ ایک سال تک خیبر میں سکونت پذیر رہے،اس کے بعد حضیر کو رحم آیا اور مدینہ میں بود و باش کرنے کی اجازت دی۔ حضرت رافعؓ کے آباواجداد بنو حارثہ کے رئیس اورسردار تھے،باپ اورچچا کے بعد یہ مسند حضرت رافعؓ کے حصہ میں آئی اور وہ تمام عمر اس پر متمکن رہے۔ ہجرت کے وقت صغیر السن تھے،تاہم اسلام دل میں گھر کرچکا تھا۔ غزوات غزوہ بدر میں ۱۴ سال کا سن تھا، آنحضرتﷺ کے سامنے لڑائی میں شریک ہونے کے ارادہ سے حاضر ہوئے آپ نے کمسن خیال کرکے واپس کیا۔ آنحضرت ﷺ کے سامنے انصار کے لڑکے ہر سال (اسد الغابہ:۲/۳۵۴) پیش ہوتے تھے،چنانچہ دوسرے سال رافع بھی پیش ہوئے،اس وقت وہ پندرہ سال کے تھے،اس لئے شرکت کی اجازت مل گئی تو ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک اورصحابی سمرہ بن جندبؓ بھی لڑکوں کی جماعت میں تھے، ان کو آنحضرتﷺ نے صغر سنی کی وجہ سے شامل نہیں فرمایا تھا، بولے کہ آپ نے رافع کو اجازت دیدی اورمجھ کو چھوڑدیا،حالانکہ میں کشتی میں ان کو پچھاڑ دوں گا،آنحضرتﷺ نے مقابلہ کرایا،سمرہ دیکھنے میں چھوٹے تھے،لیکن طاقتور تھے،رافع کو پچھاڑ دیا،اس لیے آنحضرتﷺ نے ان کو بھی میدان کی اجازت دیدی۔ (اسد الغابہ:۲/۳۵۴) ہم نے یہ روایت طبری سے لی ہے، اسماء الرجال کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ موجود ہے،لیکن ان میں رافع کے نام کی تصریح نہیں۔ (طبری:۳/۱۳۹۲) اس غزوہ میں ان کے سینہ پر ایک تیر لگا جو ہڈیوں کو توڑ کر اند گھس گیا،لوگوں نے کھینچا تو نوک اندر رہ گئی،آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہاری نسبت قیامت میں شہادت دوں گا۔ غزوۂ خندق اوراکثر معرکوں مین شامل رہے۔ وفات تیر کی نوک جو اندر رہ گئی تھی ایک عرصہ کے بعد اس نے زخم پیدا کردیا اور اسی صدمہ سے جان بحق تسلیم ہوئے،نہلانے میں عصر کا وقت آگیا، حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ مغرب سے پیشتر نماز جنازہ پڑھ لینی چاہیے، جنازہ کفنا کر باہر لایا گیا اور اس پر سرخ چادر ڈالی گئی، (مسند بن حنبل:۴/۱۴۱) حضرت ابن عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی، جنازہ کے ساتھ آدمیوں کی بڑی کثرت تھی،عورتیں بین کرتی اورچیختی ہوئی نکلیں تو ابن عمرؓ نے کہا خدا کے لئے ان کے حال پر رحم کرو یہ پیر مرد عذاب الہی برداشت نہ کرسکیں گے۔ وفات کے وقت ۸۶ برس کا سن تھا، سنہ وفات میں اختلاف ہے ،امام بخاری نے تاریخ اوسط میں لکھا ہے کہ امیر معاویہؓ کے زمانہ میں انتقال کیا،باقی مؤرخین کی رائے ہے کہ ۷۴ھ کی ابتداء تھی اور عبدالمالک بن مروان کی خلافت تھی۔ ترکہ میں حسب ذیل چیزیں چھوڑیں: لونڈی، غلام، اونٹ ،زمین (مسند بن حنبل:۴/۱۴۱) حلیہ مفصل حالات معلوم نہیں اتنا علم ہے کہ مونچھ باریک رکھتے تھے اور زرد خضاب لگاتے تھے۔ اہل وعیال حسب ذیل اولاد چھوڑی،عبداللہ ،رفاعہ، عبدالرحمن،عبید اللہ،سہل ،عبید، ان میں اول الذکر اپنی مسجد کے امام تھے، عبید ام ولد سے تولد ہوئے تھے،باقی لڑکے دو بیویوں سے پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں، لبنی بنت قرۃ بن علقمہ بن علاثہ، اسماء بنت زیاد بن طرفہ بن معاذ بن حارث بن مالک بن نمر بن قاسط بن ربیعہ ،ان لوگوں کی اولاد مدینہ اور بغداد میں سکونت پذیر تھی۔ فضل وکمال حدیث کی کتابوں میں ان کےسلسلہ سے ۷۸ روایتیں منقول ہیں،راویوں میں صحابہ اور تابعین دونوں گروہ کے لوگ شامل ہیں جن کے نام یہ ہیں، ابن عمرؓ، محمود بن لبیدؓ، سائب بن یزیدؓ، اسید بن ظہیرؓ، مجاہدؓ، عطارؓ، شعبی، عبایہ بن رفاعہ، عمرہ بنت عبدالرحمن،سعید بن مسیب، نافع بن جبیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو النجاشی ،سلیمان بن یسار، عیسیٰ ،عثمان بن سہل، ہریر بن عبدالرحمن،یحییٰ بن اسحاق ،ثابت بن انس بن ظہیر، حنظلہ بن قیس ،نافع، واسع بن حبان ،محمد بن یحییٰ بن حبان ،عبید اللہ بن عمرو بن عثمان۔ اخلاق امر بالمعروف اوراطاعتِ رسول معدنِ اخلاق کے تابناک جواہر پارے ہیں ،ایک مرتبہ نعمان انصاری کے غلام نے چھوہارے کا ایک چھوٹا سا درخت کسی کے باغ سے اکھیڑ دیا، مروان کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا، اس نے چوری کا جرم عائد کرکے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کرلیا، تو رافعؓ نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ پھل میں قطع ید نہیں۔ (مسند بن حنبل:۴/۱۴۱) عبداللہ بن عمرؓ اپنی زمین کرایہ پر اٹھاتے تھے اور آنحضرت ﷺ ،حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور امیر معاویہؓ کے ابتدائی زمانہ خلافت تک اسی پر ان کا عمل رہا بعد میں خبر ملی کہ آنحضرتﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے اور رافعؓ کے پاس اس کی حدیث ہے؛چنانچہ نافع کو لے کر حضرت رافعؓ کے پاس گئے اور حدیث سنی ،اس کے بعد کرایہ لینا چھوڑدیا، یہ مسلم کی روایت ہے ،مسند میں ہے کہ خود رافعؓ نے ان کو یہ حدیث سنائی تھی۔ (مسلم:۱/۶۱۵،مسند:۳/۴۶۳) مروان نے ایک مرتبہ خطبہ دیا جس میں کہا کہ مکہ حرم ہے رافعؓ موجود تھے پکار کر کہا اگر مکہ حرم ہے تو مدینہ بھی حرم ہے اوراس کو رسول اللہ ﷺ نے حرم قرار دیا ہے ، میرے پاس حدیث لکھی ہوئی ہے، اگر چاہو تو دکھا سکتا ہوں، مروان نے جواب دیا ہاں وہ حدیث میں نے سنی ہے۔ (مسند :۴/۱۴۱) اطاعت رسول کے لئے واقعات ذیل کافی ہیں: ایک مرتبہ ان کے چچا ظہیر نے آکر بیان کیا کہ آج آنحضرتﷺ نے ایک چیز کی ممانعت فرمائی ہے، حالانکہ ہم لوگوں کو اس سے کچھ آسانی تھی، رافعؓ نے جواب دیا عم محترم جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہی حق ہے۔ (مسلم:۱/۶۱۶) ایک روز بیوی سے ہمبستر تھے،عین اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ نے آواز دی ،فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور غسل کرکے باہر نکل آئے۔ (مسند:۴/۱۴۳)