انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
قبر پرپھول، چادر ڈالنا درست ہے؟ عبارت ردالمحتار جس کوپھول ڈالنے کے لئے نقل کیا ہے دراصل گھاس کوقبر سے کاٹنے کے متعلق ہے، اصل عبارت یہ ہے: یکرہ ایضاً قطع النبات الرطب و الحشیش من المقبرۃ دون الیابس ، کما فی البحر و الدر و شرح المنیۃ ، و عللہ فی الامداد بانہ مادا رطباً ےسبح اللہ تعالیٰ ، فیونس المیت و تنزل یذکرہ الرحمۃ ۔ اس کے بعد شامی نے بطور قیاس لکھا ہے: و یقاس علیہ ما اعتید فی زماننا من وضع اغصان الاٰس و نحوہ ۔اپنی طرف سےصرف یہ قیاس کیا ہے اور مجتہدین سے کوئی نقل پیش نہیں کی، شافعیہ سے نقل کیا ہے: و صرح بذلک ایضاً جماعۃ من الشافعیۃ ۔ محدثین کی ایک بڑی جماعت حدیث وضع الجریدۃ کی تخصیص ہے کہ آنحضرت ﷺکے دست مبارک کی برکت تھی، علامہ شامیؒ کو شافعیہ کی رائے پسند ہے: و ھذا اولیٰ مما قالہ بعض المالکیۃ من ان التخفیف من القبر ین انما حصل ببرکۃ یدہ الشریفۃ ﷺ او دعائہ لھما ، فلا یقاس علیہ غیرہ ۔ اگر قیاس ہی کرنا ہے تو جس قدر کا ثبوت ہے اس کو اتنی ہی مقدار میں قیاس کیا جائے: و قد ذکر البخاری فی صحیحہ ان بریدۃ ابن الحصیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوصی بان ےجعل فی قبرہ جریدتان ۔ پھر یہ کہ عامتاً المشائخ اور اولیاء کرام کے مزارات پر پھول چڑھاتے ہیں جن کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا بھی دشوار ہے کہ ان کے لئے تخفیفِ عذاب کی ضرورت ہے اور اگر کوئی دنےا دار آدمی ہو جس کے ذمہ بہت سے حقوق ہوں اور بحکمِ نصوص عذاب قبر کے مستحق ہوں ان کی قبر پر پھول نہیں ڈالے جاتے، جنازہ پر پھول چادر ڈالنا اگر کسی صحابی، تابعی، مجتہد سے ثابت ہو تو اس کو پیش کیا جائے، کفن میں خوشبو، حنوط وغیرہ لگانا درمختار نے جہل لکھا ہے۔ فتاویٰ محمودیہ:۹/۱۷۱، مکتبہ شیخ الاسلام دیوبند۔ رحیمیہ:۷/۱۲۳ ، مکتبہ دار الاشاعت، کراچی۔فتاویٰ دار العلوم دیوبند:۵/۴۵۷، مکتبہ دار العلوم دیوبند، یوپی۔