انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** غزوہ تبوک جنگ موتہ کی ہزیمت کا انتقام لینے کے لئے غسانی بادشاہ نے ایک لشکرِ عظیم فراہم کرکے ہر قل روم سے امداد طلب کی،ہر قل نے چالیس ہزار کا لشکرِ جرار غسانی بادشاہ کے پاس بھیجا اور خود بھی عظیم الشان فوج لے کر عقب سے روانہ ہونے کا قصد کیا،ابو عامر راہب جس کا اوپر ذکر آچکا ہے مکہ سے قیصرِ روم کے پاس چلا گیا تھا، اس کا کام اورمقصد یہی تھا کہ قیصر کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے اکسائے،ادھر اس نے منافقین مدینہ سے برابر خفیہ پیام وسلام کا سلسلہ جاری رکھا، اس کے دئے ہوئے مشورہ کے موافق منافقین نے مسجدضر ار کی تعمیر شروع کی تھی، غرض سرحدِ شام پر عیسائی فوجوں کے اجتماع اورقیصر کے مدینہ پر حملہ آور ہونے کی خبریں متواتر مدینہ میں پہنچنی شروع ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عیسائی حملہ کو ملکِ شام کی سرحد پر روکنا ضروری سمجھا؛ کیونکہ ملکِ عرب کے اندر ہر قل روم کی فوجوں کے داخل ہونے سے یک لخت تمام ملک عرب میں بد امنی پیدا ہونے کا قوی احتمال تھا،نیز سرحد پر ایسے لشکرِ عظیم کا اجتماع کوئی ایسی بات نہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو معمولی سی بات سمجھ کر خاموش رہتے ؛چنانچہ آپ نے عام طور پر قبائل کو اطلاع دی کہ ہرقل کی فوجوں کے مقابلے کے واسطے آ آ کر شریکِ لشکر ہونا چاہئے،مسلمان اطرافِ ملک سے آ آ کر مدینہ منورہ میں جمع ہونے شروع ہوئے،منافقین کی جماعت مدینہ میں موجود تھی،یہ لوگ مسلمانوں کو ہمیشہ بہکانے اوراسلام کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ اس سے پہلے جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی طرف کو فوج لے جانے کا عزم فرمایا پہلے سے اس کا اعلان نہیں فرماتے تھے تاکہ منافقین کو اعتراض کرنے اورمسلمانوں کے بد دل بنانے کا موقع نہ مل سکے،عین وقت مسلمانوں کو معلوم ہوتا تھا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں،اس مرتبہ چونکہ بڑا لشکر جمع کرنا تھا اوراس کا سامان فراہم کرنا بھی دشوار کام تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کردیا تھا کہ ہر قل کی فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سرحد شام کی طرف مسلمانوں کو جانا پڑے گا،گذشتہ سال چونکہ خشک سالی رہی تھی اس لئے لوگوں کی مالی حالت بھی سقیم تھی،اس سال فصل اور پیدا وار اچھی ہوئی تھی اوراس کے کاٹنے کا وقت آچکا تھا لہذا لوگ اپنی فصلوں کو چھوڑ کر جانا بالطبع کسی قدر گراں محسوس کرتے تھے ،ہر قل اوراس کے وزراء نے اپنے اس حملہ کی تیاریوں کے سلسلے میں منافقین مدینہ کو پہلے ہی سے اپنا شریک بنالیا تھا،مدینہ کے منافقوں کی سازشی مجلسیں مویلم نامی یہودی کے یہاں روزانہ منعقد ہوتی تھیں بارہ منافقوں نے مل کر اپنی ایک مسجد الگ تعمیر کی،مدعایہ تھا کہ اس مسجد میں سازشی جلسے اورہر قسم کی مخالف اسلام صلاح ومشورہ کی باتیں ہواکریں گی اوراس مسجد کے ذریعے مسلمان جنگ اورسفر کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو ہمت شکن باتیں شروع کیں اور موسم گرما کے اس طویل سفر کی دقتیں لوگوں میں بیان کرنے لگے؛کیونکہ ان کا مقصد قیصر کی فوجوں کو مدینہ پر حملہ آور کرانا تھا،وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان ملکِ شام کی طرف پہلے ہی حملہ آور ہو کر عیسائی فوجوں کے سیلاب کو عرب میں داخل ہونے سےر وک دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں تمام صحابہ کو تیاری کرنے اورشریکِ لشکر ہونے کا حکم دیا تھا،ساتھ ہی زادراہ،سواری،اسلحہ،جنگ کے لئے روپے کی زیادہ ضرورت تھی،اس لئے چندہ کی بھی عام اپیل فرمائی تھی،منافقین نے لوگوں کو بہکانے اورمسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، حضرت عثمان غنیؓ اپنا مالِ تجارت شام کی طرف روانہ کرنے والے تھے،انہوں نے وہ تمام لشکر کے سامان کی تیاری کے لئے چندہ میں دے دیا،جس کی مقدار نوسو اونٹ ،سو گھوڑے معہ ساز و براق اورایک ہزار دینار طلائی تھی،حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے گھر کا تمام مال واسباب لاکر چند ہ میں دےدیا، اورکہا کہ بال بچوں کو خدا کے سپرد کرتا ہوں،حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے مال اوراسباب سے نصف راہ خدا میں لاکر دے دیا، اورنصف اہل وعیال کے لئے چھوڑا،جو لوگ بہت ہی غریب تھے اورمحنت مزدوری سے گزر کرتے تھے، انہوں نے بھی بڑی دلیری سے جو کچھ ان سے ہوسکا لالا کر جمع کردیا،منافقین نے اس چندہ میں بھی شرکت نہ کی،تیس ہزار لشکر مدینہ میں جمع ہوگیا،فوجی سامان صرف اس قدر درست ہوا کہ تمام فوج نے جوتے بنالئے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ تم لوگ جوتے بنالو؛کیونکہ پاؤں میں جوتے ہونے سے آدمی سوار کے حکم میں سمجھا جاتا ہے۔