انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت فضالہ بن عبیدؓ نام ونسب فضالہ نام، ابو محمد کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے ،فضالہ بن عبید بن نافذ بن قیس بن صہیب بن اصرم بن جحجبی بن کلفۃ بن عوف بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس، والدہ کا نام عقبہ بنت محمد بن عقبہ بن الجلاج انصاریہ ہے۔ عبید بن نافذ (حضرت فضالہؓ کے والد) اپنے قبیلہ کے سر برآوردہ شخص تھے اوس و خزرج کی لڑائی میں نمایاں رہے،نہایت شجاع و بہادر تھے، گھوڑ دوڑ کراتے اوراس میں سب سے بازی لیجاتے،زور وقوت کا یہ حالت تھا کہ ایک پتھر دوسرے پر دے مارتے (اصابہ:۵/۲۱۰) تو آگ نکلنے لگتی، سپہ گری کے ساتھ فن میں اور شاعری کا بھی کافی ذوق رکھتے تھے۔ اسلام حضرت فضالہؓ مدینہ میں اسلام کے قدم آتے ہی مسلمان ہوگئے تھے۔ غزوات لیکن کسی وجہ سے بدر میں شریک نہ ہوئے ،غزوۂ احد اور باقی تمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب رہے اور بیعت الرضوان میں بھی شرکت کا شرف حاصل کیا۔ (اصابہ:۵/۲۱۰) عہدِ نبوت کے بعد شام گئے اور وہاں کی فتوحات میں حصہ لیا، اس کے بعد فتح مصر میں شامل ہوئے،پھر شام آکر مستقل سکونت اخیتار کی اور دمشق میں اپنے رہنے کے لئے مکان بنایا بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ نے بنوادیا تھا۔ (مسند:۶/۱۹) حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں قاضی دمشق حضرت ابورداءؓ تھے،انہوں نے انتقال فرمایا تو حضرت امیر معاویہؓ نے وفات سے قبل ان سے پوچھا آپ کے بعد قاضی کس کو بنایا جائے؟ فرمایا فضالہ بن عبیدؓ کو ،حضرت ابودرداءؓ فوت ہوئے تو حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت فضالہؓ کوبلاکر دارالامارۃ کا محکمۂ قضا سپرد کیا۔ صفین ۳۷ھ میں امیر معاویہؓ جناب امیر ؓ کے مقابلہ کو نکلے تو دمشق میں اپنا جانشین انہی کو بنایا، اس موقع پر انہوں نے جو الفاظ کہے وہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں: لم احبک بھا ولکن استرت بک من النار (استیعاب:۲/۵۳۱) میں نے تم کو اپنا جانشین نہیں؛ بلکہ جہنم کے مقابلے میں سپر بنایا ہے۔ ۴۹ھ میں سلطنت روم پر لشکر کشی کی،تو تمام لشکر انہی کی ماتحتی میں دیا، (مسند:۶/۱۸) انہوں نے بہت سے قیدی پکڑے،اسی ضمن میں جزیرہ قبر ص پر بھی حملہ کیا۔ (مسند:۶/۱۸) امیر معاویہؓ کی طرف سے درب (طرسوس اوربلادروم کے درمیانی علاقہ کا نام ہے) کے بھی عامل مقرر ہوئے۔ (مسند:۶/۱۸) وفات ۵۳ھ میں وفات پائی، امیر معاویہؓ مسند حکومت پر تھے،خود جنازہ اٹھایا اوران کے بیٹے عبداللہ سے کہا، میری مدد کرو، کیونکہ اب ایسے شخص کے جنازہ کے اٹھانے کا موقع نہ ملے گا، دمشق میں دفن ہوئے مزار مبارک موجود ہے اوراب تک زیارت گاہ خلائق ہے۔ اولاد بیٹے کا نام عبداللہ تھا فضل وکمال ایوانِ حکومت کے ساتھ مجلس علم میں بھی مرجع انام تھے،لوگ دور دراز سے حدیث سننے آتے تھے،ایک شخص اسی غرض سے ان کے پاس مصر پہنچا تھا۔ (مسند:۶/۱۸) جو شخص رسول اللہ ﷺ کے شرف صحبت سے مشرف اورحضرت عمرؓ اورحضرت ابودرداءؓ جیسے اساطین امت سے مستفیض ہوا ہو، اس کے فضل وکمال کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے، دارالسلطنت دمشق کی مسند قضا کے لئے اور پھر حضرت ابودرداء جیسے بزرگ کی رائے سے منتخب ہونا، ان کی قابلیت کی سب سے بڑی سند ہے ،لیکن بایں ہمہ فضل وکمال صرف ۵۰ حدیثیں ان کے سلسلہ سے ثابت ہیں راویوں کے نام حسب ذیل ہیں: حنش صنعانی، عمرو بن مالک الجنبی،عبدالرحمن بن جبیر، عبدالرحمٰن بن محیریز، ابو علی ثمامہ بن شفی، علی بن رباح ،محمد بن کعب القرضی، عبداللہ بن عامر یصبی، سلیمان بن سنجر، عبداللہ بن محیریز ،میسرۃ،ابو یزید خولانی اخلاق احکام رسول کی تعمیل اور پابندی سنت کا ہر کام میں خیال رکھتے تھے۔ غزوۂ روم میں ایک مسلمان کا انتقال ہوا، تو حضرت فضالہؓ نے حکم دیا کہ ان کی قبر زمین کے برابر بنائی جائے؛ کیونکہ آنحضرتﷺ ہم کو اسی کا حکم دیتے تھے، (مسند:۶/۱۸) ان کے علاوہ بھی جو مسلمان روم میں شہید ہوئے،سب کی قبریں اسی طرح بنوائیں۔ (مسند:۶/۱۸) ایک شخص مصر آیا اورحدیث سننے کے لئے ملاقات کی تو دیکھا کہ پراگندہ سر اوربرہنہ پا ہیں ،بڑا تعجب ہوا، اور بولا کہ امیر شہر ہوکر یہ حالت؟ فرمایا ہم کو آنحضرتﷺ نے زیادہ تن آسانی اوربناؤ سنگار کی ممانعت کی ہے اور کبھی کبھی ننگے پیر رہنے کو بھی فرمایا ہے۔ (مسند:۶/۱۸)