انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وجہ ہجرت مدینہ ہجرت کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حسب ذیل امور پر روشنی ڈالی جائے : ہجرت کیوں کی گئی : مکہ کے صنم کدے میں جہاں بیت اﷲ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی تھی کہ ساری دنیا میں یہاں سے توحید کی آواز پہنچائی جائے گی وہاں سینکڑوں بتوں کی پوجا ہوتی تھی اور انہی کی جئے کانعرہ لگتا تھا، اس پر عقیدت و ارادت کا ایسا رنگ چڑھ گیاتھا کہ اس کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا مصیبت کو دعوت دینا تھا اور جان بوجھ کر اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا تھا، دنیا کے آخری نبی حضرت محمدﷺ نے جب توحید کی صدا بلند کی اور لوگوں کو اس کی دعوت دی اور کچھ لوگوں نے اس کو قبول کرلیا تو مکہ کے صنم کدہ میں دفعۃ زلزلہ پڑگیا اور بتوں کی حمایت اور توحید کی مخالفت میں ایک ساتھ پوری آبادی نے ہجوم و یلغار سے کام لیا۔ وجہ نزاع صرف یہ تھی کہ مسلمان یہ کہتے تھے کہ ہم کو اپنے اعتقاد و ضمیر کی آزادی دو ، ہم کو اپنی عقل اور اپنی فہم کے فیصلہ پر چلنے دو اس کے خلاف جبراً نہ ہم پر کوئی چیز لادو نہ اس پر مجبور کرو ، کفار قریش کہتے تھے یہ نہیں ہوگا تم کو توحید کا اقرار اور اعلان نہیں کرنا ہوگا ؛بلکہ بتوں کا احترام اور اس کی پوجا کرنی ہوگی اور آبائی دین پر ہی قائم رہنا پڑے گا، مکہ کے صنم کدہ میں اس کا حق کسی قیمت پر نہیں دیا جائے گا کہ تم توحید کا کلمہ پڑھو بلکہ جبراً تم کو آبائی دین پر لوٹایا جائے گا اور اس کے لئے ہر طرح کی اذیت دی جائے گی اور زندگی اجیرن کر دی جائے گی ،معاملہ جب اس حد کو پہنچ گیا کہ دین پر قائم رہنا مکہ کی مشرکانہ فضاء میں نا ممکن ہو گیا تو مجبوراً دین کو بچانے کے لئے مسلمانوں نے اپنا گھر چھوڑا ، اپنا وطن چھوڑا، اعزاء و اقارب کو چھوڑا ، مال و متاع کو چھوڑا اور جان سے بھی زیادہ عزیز اور محترم چیز بیت اﷲ کو چھوڑا جس پر ان کو بھی اتنا ہی حق تھا جتنا کفار قریش کو تھا،ہجرت کے بارے میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے : مومن لوگ اپنے دین کی خاطر اﷲ اور اﷲ کے رسول کی طرف اس ڈر سے بھاگتے تھے کہ وہ فتنہ میں نہ مبتلا کردئیے جائیں یعنی ان کو ارتداد پر مجبور نہ کیا جائے، حضرت خباب ؓ کا بیان ہے : ہم لوگوں نے رسول اﷲﷺ کے ساتھ ہجرت کی، اس کا مقصد صرف خدا کی رضا تھی،جب مسلمان مکہ کو خیر باد کہہ کر مدینہ ہجرت کر گئے اور صرف پیغمبر عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ اور چند گنے چنے مسلمان رہ گئے اور سب کے ظلم و ستم کے آپﷺ ہدف بن گئے اور معاملہ اس حد تک پہنچا کہ آپﷺ کے قتل کے لئے متحدہ قبائل کے نوجوانوں نے متحدہ تجویز کی بناء پر آپﷺ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور اسلام کو مٹا دینے کی سازش اپنی اس آخر حد کو پہنچ گئی کہ وحی الٰہی کی زبان پر یہ آگیا : " (اے پیغمبر) وہ وقت یاد کرو جب کافر تم پر داو چلانا چاہتے تھے تاکہ تم کو گرفتار کر رکھیں یا تم کو مار ڈالیں یا تم کو جلاء وطن کردیں اور (حال یہ تھا کہ) کافر اپنا داو کر رہے تھے اور اﷲ اپنا داو کر رہا تھا اور اﷲ سب داو کرنے والوں سے بہتر داو کرنے والا ہے ( سورہ انفال :۳۰ ) تو اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو بھی ہجرت کا حکم دیا اور آپﷺ عین محاصرہ کی حالت میں ان کے بیچ سے ہوکر نکل گئے اور بیت اﷲ چھوڑ نے پر مجبور ہوئے ، جب آپﷺ کاشانۂ نبوت سے ہجرت کے خیال سے نکلے تو بیت اﷲ پر حسرت بھری نگاہ ڈالی اور فرمایا: مکہ ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے فرزند مجھ کو ہجرت پر مجبور نہ کرتے تو میں مکہ نہ چھوڑ تا ۔