انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مستظہر باللہ ابوالعباس احمد مستظہر باللہ بن مقتدی باللہ ماہِ شوال سنہ۴۷۰ھ میں پیدا ہوا اور اپنے باپ کے بعد بہ عمر سولہ سال تخت نشین ہوا، مقتدی کی وفات کے وقت برکیارق بغداد میں موجود تھا، اس نے بطیبِ خاطر مستظہر باللہ کی بیعت کی، خلیفہ مقتدی کی وفات کے تیسرے روز مجلس عزا منعقد ہوئی اور سلطان برکیارق مع اپنے وزیر عزالملک بن نظام الملک اور اس کے بھائی بہاؤ الملک کے حاضر دربار خلافت ہوا اور دوسرے اراکین بھی ماتم پرستی کوآئے، سنہ۴۸۸ھ میں احمد خاں والی سمرقند اپنی بدمذہبی کی وجہ سے گرفتار ہوکر مقتول ہوا اور اس کی جگہ اس کا چچیرا بھائی تخت سلطنت پربیٹھا؛ اسی سال تتش اور برکیارق میں رَے کے قریب جنگ ہوئی، اس لڑائی میں برکیارق کے ہاتھ سے تتش مارا گیا اور برکیارق کی حکومت کوخوب استحکام حاصل ہوگیا، برکیارق کے بھائی محمد نے قوت حاصل کرکے خراسان پرقبضہ کرلیا، برکیارق اس کے مقابلہ کوگیا، سنہ۴۹۶ھ کوبہ مقام رَے جنگ ہوئی، برکیارق شکست کھاکر خوزستان چلا گیا محمد بن ملک شاہ نے بغداد میں داخل ہوکر ۱۵/ذوالحجہ سنہ۴۹۲ھ کوخلیفہ مستظہر باللہ سے غیاث الدین والدین کا خطاب حاصل کیا؛ پھرخراسان کی طرف چلا گیا، برکیارق نے خوزستان سے واسط پہنچ کرلشکر جمع کیا اور ۱۵/صفرالمظفر سنہ۴۹۳ھ کوواردِ بغداد ہوا، خلیفہ نے مبارک باد دی، خلعت عطا کیا اور پھربرکیارق کے نام کا خطبہ پڑھا جانے لگا، اس کے بعد برکیارق نے محمد بن ملک شاہ پرحملہ کیا، ہمدان کے قریب نہرابیض کے کنارے لڑائی ہوئی اور برکیارق کوشکست ہوئی، اس کے بعد ۱۵/رجب سنہ۴۹۳ھ کوپھربغداد میں سلطان محمد کے نام کا خطبہ پرھا گیا، برکیارق نے شکست پاکر رَے میں قیام کیا؛ یہاں سے اصفہان؛ پھروہاں سے خوزستان گیا، وہاں سے فوج فراہم کرکے یکم جمادی الثانی سنہ۴۹۴ھ کومحمد سے پھرجنگ آزمائی کی، اس کوشکست دے کررَے میں آیا، محمد اپنے حقیقی بھائی سنجر کے پاس جرجان چلا گیا، آخر۱۵/ذیقعدہ سنہ۴۹۴ھ کوبرکیارق بغداد میں پہنچا اور اس کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ غرض سلطان برکیارق اور اس کے بھائی سلطان محمد کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا، کبھی بغداد میں ایک کی حکومت ہوتی، کبھی دوسرے کی، کبھی صلح ہوجاتی اور پھرفوراً ہی لڑائی ہونے لگتی، اس مسلسل وپیہم لڑائیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام عراق وفارس وجزیرہ وغیرہ ممالک کا امن وامان جاتا رہا اور لوگوں کواپنی عزتوں اور جانوں کا بچانا دشوار ہوگیا، جمادی الاوّل سنہ۴۹۷ھ میں دونوں بھائیوں کے درمیان امراءِ لشکر کی کوششوں سے ایک صلح نامہ مرتب ہوا اور دونوں کے درمیان ملک تقسیم ہوگئے، ساتھ ہی یہ شرط بھی دونوں نے منظور کرلی کہ دونوں کے مقبوضہ ممالک میں دونوں کے نام کا خطبہ پڑھا جائے، اس صلح نامہ کی رُو سے بغداد کی حکومت سلطان برکیارق کے پاس رہی، اس صلح نامہ کے بعد چند روز برکیارق اصفہان میں مقیم رہا، وہاں سے بغداد کی طرف آرہا تھا کہ راستہ میں بہ مقام یزد جرد علیل ہوکر ماہِ ربیع الثانی سنہ۴۹۸ھ میں انتقال کیا، مرتے وقت اس نے اپنے بیٹے ملک شاہ بن برکیارق کواپنا ولی عہد اور امیرایاز کواس کا اتالیق بنایا۔ ملک شاہ کی عمر اس وقت صرف پانچ سال کی تھی، برکیارق کے جنازہ کواصفہان میں لے جاکر دفن کیا گیا، امیرایاز، ملک شاہ کولے کر۱۵/ربیع الثانی سنہ۴۹۸ھ میں داخل بغداد ہوا، خلیفہ نے ملک شاہ کووہ تمام خطابات جواس کے دادا ملک شاہ بن الپ ارسلان کوحاصل تھے، عطا کیے اور اس کے نام کا خطبہ بغداد میں پڑھا گیا، اس کے بعد سلطان محمد نے موصل پرقبضہ کرکے بغداد کا رُخ کیا، سنہ۵۰۱ھ میں داخل بغداد ہوا، امیرایاز کوقتل کیا اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا، سنہ۵۰۲ھ میں سلطان محمد نے بغداد میں اپنے لیے ایک قصر تیار کرایا، اب سلطان محمد بن ملک شاہ کی حکومت پورے طور پراپنے آبائی ممالک پرقائم ہوگئی اور فتنہ وفساد دور ہوئے، ماہ شعبان سنہ۵۱۱ھ میں سلطان محمد بن ملک شاہ نے وفات پائی اور اس کا بیٹا سلطان محمود باپ کی جگہ تخت نشین ہوا۔ خلیفہ نے اس کی تخت نشینی کوقبول ومنظور فرماکر خلعت عطا کیا اور ۱۵/محرم سنہ۵۱۳ھ کومسجدوں میں اس کے نام کا خطبہ پڑھاگیا، اس کے بعد ۱۵/ربیع الآخر سنہ۵۱۲ھ کوخلیفہ مستظہر باللہ نے چوبیس سال تین مہینے خلافت کرنے کے بعد وفات پائی اور اس کا بیٹا ابومنصور فضل تخت نشین ہوا اور اپنا لقب مسترشد باللہ رکھا۔