انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** نقل وروایت میں عربوں کا قومی مزاج آنحضرتﷺ کی بعثت سے بہت پہلےاللہ تعالی نے نقل روایت اور پچھلی باتوں کو آگے نقل کرنا عربوں کے قومی مزاج میں داخل کر رکھا تھا،قومی برتری کے احساس تفوق،شعر وسخن کی دلدادگی اور انساب وقبائل کے تذکروں کی وجہ سے اس زبانی بیان علم اورضبط روایت کو بہت اہمیت حاصل تھی،جب عرب اسلام میں داخل ہوئے تو نقل روایت کا وہ قدیم تاریخی اہتمام اپنے آقا کی تعلیمات قدسیہ کی نقل وروایت میں جذب ہوگیا اورر وایات کے حفظ وضبط میں یہ فطری محنت اس وقت تک بڑی آب وتاب سے قائم رہی جب تک تحریرات حدیث باقاعدہ تدوین کے دورمیں داخل نہ ہوگئیں۔ پہلے پیغمبروں کا علم الآثار ان پیغمبروں سے کچھ آگے چلا،لیکن حضورخاتم النبیینﷺ کے اٰثار رسالت اپنی کامل ترین صورت میں دنیا میں پھیلے اور آگے بڑھے اور تاریخ کے ہر دور میں انسانی زندگی کو روشنی بخشتے رہے، پہلے پیغمبروں سے ان کی شریعت کی ابدی حفاظت کا وعدہ نہ تھا؛ کیونکہ نیا پیغمبر انہیں نئے سرے سے الہٰی قانون بتلاسکتا تھا؛ لیکن حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی کو نہ آنا تھا؛ اس لیے اللہ تعالی نے آپ کے دین کی ابدی حفاظت کا وعدہ فرمایا۔