انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تعمیری ذوق خلیفہ عبدالرحمن کو سلاطین اندلس میں وہی مرتبہ حاصل تھا جو ہندوستان کے شاہان مغلیہ میں شاہجہاں کو،مسجد قرطبہ کی تعمیر کا کام عبدالرحمن اول کے زمانے میں شروع ہوکر اس کے بیٹے ہشام کے زمانے میں ختم ہوچکا تھا مگر اس کے بعد بھی ہر ایک فرماں روائے اندلس نے اس مسجد کی شان وشوکت اور زینت کے بڑھانے میں ہمیشہ خزانوں کا منہ کھلا رکھا ،خلیفہ عبدالرحمن ثالث نے بھی اس مسجد کی تعمیر وتکمیل میں چالیس اور پچاس لاکھ کے درمیان خرچ کیا اس مسجد کاطول شرق سے غرب تک پانچ سو فٹ تھا اس کی خوبصورت محرابیں ایک ہزار چار سو سترہ سنگ مرمر کے ستونوں پر قائم تھیں،محراب کے قریب ایک بلند منبر خالص ہاتھی دانت اور چھتیس ہزار مختلف رنگ وار وضع کی لکڑی کے ٹکڑوں سے بنا اور ہر قسم کے جواہرات سے جڑا ہوا رکھا تھا، یہ منبر سات برس کے عرصہ میں تیارہوا تھا،خلیدہ عبدالرحمن نے ا س مسجد کے قدیم میناروں کو گراکر ایک نیا مینار ایک سو آٹھ فٹ بلند تیار کرایا تھا جس میں چڑھنے اوراترنے کے دوزینے میں ایک سو سات سیڑھیاں تھیں اس مسجد میں چھوٹے بڑے دس ہزار جھاڑ روشنی کے جلا کرتے تھے جن میں سے تین سب سے بڑے جھاڑ خالص چاندی کے اور باقی پیتل کے تھے بڑے بڑے جھاڑوں میں ایک ہزار چارسو اسی پیالے روشن ہوتے تھے اور ان تین چاندی کے جھاڑوں میں چھتیس سیر تیل جلاکرتا تھا تین سو ملازم اور خدام اس مسجد کے لیے متعین تھے۔ خلیفہ عبدالرحمن نے اپنی عیسائی بیوی زہرہ کے لیے قرطبہ سے چار میل کےفاصلے پر جبل العروس کےپرفضا دامن میں ایک رفیع الشان قصر تیار کیا یہ اس قدر وسیع عمارت تھی کہ اس کو بجائے قصرالزہرہ کےمدینۃ الزہرہ کہتے تھے، اس قصر کی وسعت کا اندازہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ اس کے احاطے کی دیواروں میں پندرہ ہزار بلند اور شان دار دروازے تھے ،یہقصر ہمارے زمانے کے موجودہ رائج الوقت سکے کے اعتبار سے بیس کروڑ پچاس لاکھ روپیہ کی لاگت میں بن کر تیار ہوا تھا ؛لیکن اگرزمانے میں روپیہ کی ارزانی اور ضروریات کی زندگی کی گرانی کا لحاظ کیاجاوے تو قصر الزہرہ کی لاگت ہمکو ایک ارب روپیہ سے کم نہیں بتلانی چاہیے،اس قصر کا طول چار میل اور عرض قریباً تین میل تھا ۳۳۵ھ سے اس قصر کی تعمیر سروع ہوکر ۳۵۰ھ میں پچیس سال کے اندر ختم ہوئی ،دس ہزار معمار چارہزار اونٹ اور خچروں سے روزانہ اس کے بنانے میں کام لیا جاتا تھا یہ قصر چار ہزار تین سو سولہ برجوں اور ستونوں پر جو سنگ مرمر وغیرہ قیمتی پتھروں کے بنے ہوئے قائم تھا،ان ستونوں میں سے بعض ستون فرانس وقسطنطنیہ وغیرہ کے بادشاہوں نے ہدیۃ عبدالرحمن ناصر کی خدمت میں بھیجے تھے ۔ عبداللہ،حسن بن محمد،علی بن جعفر وغیرہ انجینیروں کو بھیج کرسنگ مرمر کی ایک مقداد افریقہ سے منگوائی گئی تھی ایک سب سے بڑا فوارہ جو سونے کا معلوم ہوتا تھا اور اس پر نہایتخوش نما نقش ونگار تھے جو احمد یونانی اور ربیع پادری قسطنطنیہ سے لائے تھے ایک فوارہ سنگ سبزہ کا ملک شام سے منگوایاگیا تھا بارہ پرند وار چرند جانوروں کی صورتیں مختلف جواہرات اورسونے کی بنی ہوئی اس میں لگائی گئی تھیں،ہر جانور کے منہ میں چونچ میں سے پانی کا فوارہ بلند ہوتا تھا اس فوارے میں کاریگر نے وہ دست کاری کی تھی کہ یورپ کے جن سیاحوں نے انکو دیکھا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ دیکھنا اورسننا تو بڑی بات ہے خٰاب اور خیال کو بھی مجال دخل نہ تھی۔ اس قصر کا ایک حصہ قصرالخلفاء بھی قابل دید تھا ،اس کی چھت خالص سونے اورایسے شفاف سنگ مرمر سے بنی ہوئی تھی کہ دوسری طرف کی چیز مثل آئینہ کے نظر آتی تھی یہ چھت باہر کی جانب سونے چاندی کے سفالوں سے سجی ہوئی تھی اس کے وسط میں ایک خوبصورت مرصع فوارہ نصب تھا جس کے سرپر وہ مشہور موتی جڑا ہوا تھا جس کو شہنشاہ یونان نے بطور تحفہ عبدالرحمن ثالث کی خدمت میں بھیجا تھا اس فوارے کے علاوہ قصر کےبیچ میں ایک فوارہ نما طشت پارہ سے لبریز رکھا تھا اس قصر کے گرد نہایت خوش نما آئینے ہاتھی دانت کے چوکٹوں میں جڑے ہوئے تھے مختلف اقسام کی لکڑیوں کے مرصع دروازے سمگ مرمر اوربلوری چوکٹوں پر نصب تھے جس وقت یہ دروازے کھول دیے جاتے اور آفتاب کی شعاع سے مکان روشن ومنور ہوتا تو کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ اس کی چھت اور دیواروں کی طرف نظر بھر کے دیکھ سکے اس حالت میں اگر پارہ ہلادیا جاتا تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ مکان جنبش میں ہے جولوگ اس راز سے واقف نہ تھے وہ مکان کو فی الحقیقت جنبش میں سمجھ کر بے حد خائف ہوتے۔ اس قصر کے انتظام کے لیے تیرہ ہزار سات سو پچاس ملازم اور تیرہ ہزار تین سو بیاسی غلام جو نصاری قوم کے تھے متعین تھے،حرم سرا کے اندر چھ ہزار عورتں خدمت گزاری کے لیے حاضر رہا کرتی تھیں ،حوضوں میں روزانہ بارہ ہزار روٹیاں علاوہ اور چیزوں کےمچھلیوں کی خورش کے لیے ڈالی جاتی تھیں ،مدینۃ الزہرا نادرالوجود قصر تھا جس کی وسعت سنگ مرمر کی عمارات ،دربار خاص وعام کی شان وشوکت اس کے باغات کا پر فضا سماں ہزار ہا فوارے اچھلتے نہریں اور حوض پانی سے چھلکتے تھے دیکھنے کے لیے دوردور سے سیاہ أتے تھے عربوں نے اس قصر کو اپنی صنعت وحرفت ودست کاری کی نمائش گاہ بنادیا تھا ،افسوس کہ عیسائی وحشیوں نے آئندہ زمانے میں جب قرطبہ پر قبضہ کیا توقصرالزہرا کا نام ونشان تک مٹادیا مسجدوں کوڈھایا مقبروں کو مسمار کرکے قبروں تک کو ادھیڑ ڈالا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔