انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت جبیر ؓبن مطعم نام ونسب جبیر نام، ابو محمد کنیت، نسب نامہ یہ ہے، جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف قرشی نوفلی جبیر کے والد مطعم قریش کے نرم دل اورخدا ترس بزرگوں میں تھے، ان کی وجہ سے آنحضرتﷺ کو مکہ کی ابتدائی زندگی میں جبکہ آپ پر چاروں طرف سے مصائب وآلام کا ہجوم تھا، بڑی امداد ملی، غالباً ناظرین کو معلوم ہوگا کہ مکہ میں جب آنحضرتﷺ کی تبلیغی کوششیں بار آور ہونے لگیں اور قریش کو آنحضرتﷺ کو فریضۂ تبلیغ سے روکنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی، تو آپس میں معاہدہ کرکے بنو ہاشم کا مقاطعہ کردیا جس کی رو سے بنی ہاشم میں شادی بیاہ اورخریدوفروخت جملہ معاشرتی تعلقات ناجائز قرارپائے اوریہ عہد نامہ خانۂ کعبہ میں آویزاں کردیا گیا، اس معاہدہ کی رو سے چونکہ قریش کی دوسری شاخوں کا میل جول بنی ہاشم کے ساتھ ممنوع ہوگیا تھا، اس لیے بنی ہاشم شعب ابی طالب میں چلے گئے اور تین سال تک اس قید میں زندگی بسر کرتے رہے، اس طویل مدت میں شعب ابی طالب پر برابر قریش کا پہرا قائم رہا اور از قسم خورد ونوش کوئی چیز شعب ابی طالب میں نہ جانے پاتی تھی، لیکن اس گروہِ اشقیا میں کچھ نرم دل بھی تھے، جو کھانے پینے کی چیزیں چھپا کر پہنچادیا کرتے تھے،آخر میں بعض منصف مزاجوں نے اس ظالمانہ معاہدہ کے خلاف صدا بلند کی اورکوشش کرکے اسے چاک کردیا، ان احتجاج کرنے والوں میں ایک جبیر بن مطعم بھی تھے۔ (سیرۃ ابن ہشام،جلداول،صفحہ:۴،۶ ملخصاً) حضرت خدیجہؓ اورابو طالب کے بعد جب مکہ میں آنحضرتﷺ کا کوئی ظاہری سہارا باقی نہ رہا اور تبلیغ کیلئے آپ طائف تشریف لے گئے اوروہاں سے ناکام لوٹے تو اس وقت مکہ کا ذرہ ذرہ آپ کا دشمن ہو رہا تھا اوربظاہر کوئی جائے پناہ باقی نہ تھی، مطعم کی نرم دلی سے آپ واقف تھے، اس لیے مکہ کے پاس پہنچ کر ان سے پناہ طلب کی، مطعم گوا س وقت کافر تھے،لیکن آنحضرتﷺ کی درخواست پر آپ کو اپنی حمایت میں لے لیا، مطعم کو معلوم تھا کہ رسول اللہ کو اپنی حمایت میں لینا تمام مشرکین مکہ کو مقابلہ کی دعوت دینا ہے، اسی لیے حمایت میں لینے کے بعد ہی اپنے لڑکوں کو حکم دیا کہ ہتھیار لگا کر حرم میں آئیں اور خود حرم میں جاکر ببانگ دہل اعلان کیا کہ میں نے محمد ﷺ کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے(ابن سعد حصہ سیرۃ :۲۲)جبیر اسی منصف مزاج اورنرم دل باپ کے فرزند تھے،لیکن قومی عصبیت قبولِ حق سے مانع آتی تھی، مشرکین مکہ اورمسلمانوں کے درمیان سب سے پہلا معرکہ بدر ہوا، اس میں جبیر شریک نہ ہوسکے تھے، لیکن اپنے قیدیوں کو فدیہ دیکر چھڑانے آئے تھے، جس وقت یہ پہنچے اس وقت آنحضرتﷺ نماز میں مصروف تھے، اورسورۂ طور کی آیات تلاوت فرمارہے تھے،جبیر مسجدمیں داخل ہوئے تو کلام اللہ کی سحر انگیز آیتیں کانوں میں پڑیں، انہیں سن کر جبیر اس درجہ متاثر ہوئے کہ وہ بیان کرتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ میرا قلب پھٹ جائے گا۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۸۸) آنحضرتﷺ کے نماز تمام کرنے کے بعد انہوں نے آپ سے بدر کےقیدیوں کے بارے میں گفتگو کی ،آپ نے ان کے باپ کے احسانات کو یاد کرکے فرمایا کہ اگر تمہارے باپ زندہ ہوتے اور وہ سفارش کرتے تو میں چھوڑدیتا۔ بدر کے مقتولین کا انتقام احد کی صورت میں ظاہر ہوا، اس میں تمام مشرکین نے بقدر استطاعت حصہ لیا، جبیر نے اپنے غلام وحشی کو بھیجا اورکہا اگر تم حمزہ کوقتل کردو گے تو تم کو آزاد کردیا جائے گا؛چنانچہ حضرت حمزہؓ اسی غلام کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اسلام جبیر میں اثر پزیر ی کا مادہ پہلے سے موجود تھا،حالت کفر میں آیاتِ قرآنی سے تاثر اسکا بین ثبوت ہے ؛لیکن قومی عصبیت مانع آتی تھی، لیکن بالآخر قبول حق کا مادہ جذبہ عصبیت پر غالب آگیا اور بروایت صحیح حدیبیہ اورفتح مکہ کے درمیانی زمانہ میں وہ مسلمان ہوگئے۔ (اصابہ:۱/۲۲) غزوات قبولِ اسلام کے بعد صرف حنین میں شرکت کا پتہ چلتا ہے،حنین کی واپسی کے وقت یہ آنحضرتﷺ کے ساتھ تھے۔ وفات جبیر آنحضرتﷺ کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہے،لیکن کہیں نظر نہیں آتے، ۵۷ھ میں مدینہ میں وفات پائی دو لڑکے محمد اور نافع یادگار چھوڑے۔ فضل و کمال گو جبیر کو آنحضرتﷺ سے فیضیاب ہونے کا بہت کم موقع ملا تاہم احادیث نبوی کی معتدبہ تعداد ان کے حافظہ میں محفوظ تھی،ان کی مرویات کی تعداد ساٹھ تک پہنچتی ہے، ان میں سے چھ متفق علیہ ہیں، ان کے تلامذہ میں محمد، نافع، سلیمان بن صرد اور ابن مسیب قابل ذکر ہیں۔ علم الانساب کے بڑے حافظ تھے اوراس کو اس فن کے سب سے بڑے ماہر حضرت ابوبکرؓصدیق سے حاصل کیا تھا، اس لئے ان کا شمار قریش کے ممتاز نسابوں میں تھا، حضرت عمرؓ کو جب نسب کی تحقیقات کی ضرورت پیش آتی تھی تو جبیر ہی سے تحقیقات کرتے تھے۔ اخلاق ان کے میزانِ اخلاق میں حلم و برد باریِ کا پلہ بہت بھاری ہے،گووہ قریش کی ایک مقتدر شاخ کے رکن اورروسائے قریش میں تھے، لیکن اس کے باوجود انہیں کبر ونخوت نام کو نہ تھا اورقریش کے حلیم ترین اشخاص میں ان کا شمار تھا۔