انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پرورش کے حقدار warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. پرورش کا حق عمر کی ایک حد تک عورتوں کو اوراس کے بعد مردوں کو حاصل ہوتاہے،البتہ حق پرورش کے معاملہ میں شریعت نے عورتوں کے طبعی رفق، شفقت اورچھوٹے بچوں کی طبعی صلاحیت،نیز خودماں کی ممتا اوراس کے جذبات مادری کی رعایت کرتے ہوئے عورتوں کو اولیت دی ہے۔ حوالہ علامہ کاسانیؒ کے الفاظ میں: وَالْأَصْلُ فِيهَا النِّسَاءُ ؛ لِأَنَّهُنَّ أَشْفَقُ وَأَرْفَقُ وَأَهْدَى إلَى تَرْبِيَةِ الصِّغَارِ۔ (بدائع الصنائع فَصْلٌ: في بَيَانُ مَنْ لَهُ الْحَضَانَةُ:۲۳۴/۸) بند اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ حق پرورش میں ماں سب سے پہلے اور مقدم ہے،اس کے بعد پھر جورشتہ کے اعتبار سے زیادہ قریب ہو،چنانچہ ماں کے بعد نانی چاہے وہ بالائی پشت کی ہو،نانی نہ ہو تو دادی اوردادی میں بھی یہی ترتیب ہے،کہ دادی نہ ہو تو پردادی بہن سے زیادہ مستحق ہے، دادی کے بعد بہن ،بہن کے بعد خالہ، خالہ کے بعد پھوپیوں کا درجہ ہے، بہن،خالہ، پھوپی،ان سب میں یہ ترتیب بھی ہے کہ ماں باپ دونوں کی شرکت کے ساتھ جو رشتہ ہو وہ مقدم ہے، اس کے بعد ماں شریک اور اس کے بعد باپ شریک کا درجہ ہے۔ حوالہ والنفقة على الأب على ما نذكر ولا تجبر الأم عليه لأنها عست تعجز عن الحضانة فإن لم تكن له أم فأم الأم أولى من أم الأب وإن بعدت لأن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات فإن لم تكن أم الأم فأم الأب أولى من الأخوات لأنها من الأمهات ولهذا تحرز ميراثهن السدس ولأنها أوفر شفقة للولاد فإن لم تكن له جدة فالأخوات أولى من العمات والخالات لأنهن بنات الأبوين ولهذا قدمن في الميراث (ھدایہ ، باب الولد من احق به ؟:۳۸۳/۱) بند اگر خواتین میں کوئی مستحق نہ ہو تو پھر حق پروش ان مردوں کی طرف لوٹے گا جو عصبہ رشتہ دار ہوں اوران رشتہ داروں میں جو وارث ہونے کے اعتبار سے مقدم ہوگا وہی حق پرورش کا بھی ذمہ دار ہوگا، فقہاء نے مردوں میں حق پرورش کی ترتیب یوں لکھی ہے، باپ،دادا، پردادا وغیرہ ، اس کے بعد حقیقی بھائی،پھر باپ شریک بھائی، پھر حقیقی بھتیجہ ،پھر باپ شریک بھائی کا لڑکا، پھر حقیقی چچا، پھر باپ شریک چچا ،پھر حقیقی چچازاد بھائی، اس کے بعد باپ شریک چچا کالڑکا، بشرطیکہ جس کی پرورش کی جارہی ہو وہ لڑکا ہو، لڑکی نہ ہو ان کے بعد باپ کے چچا اوردادا کے چچا وغیرہ کا حق ہے۔ حوالہ عن عَمْرو بْن شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي (ابوداود بَاب مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ: ۱۹۳۸)عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ترمذي بَاب فِي كَرَاهِيَةِ التَّفْرِيقِ بَيْنَ السَّبْيِ السَّبْيِ: ۱۴۹۱) عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ طَلَّقَ أُمَّ عَاصِمٍ , ثُمَّ أَتى عَلَيْهَا , وَفِي حِجْرِهَا عَاصِمٌ , فَأَرَادَ أَنْ يَأْخُذَهُ مِنْهَا , فَتَجَاذَبَاهُ بَيْنَهُمَا حَتَّى بَكَى الْغُلاَمُ , فَانْطَلَقَا إلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ : يَا عُمَرُ ، مَسْحُهَا وَحِجْرُهَا وَرِيحُهَا خَيْرٌ لَهُ مِنْك حَتَّى يَشِبَّ الصَّبِيُّ فَيَخْتَارَ(مصنف ابن ابي شيبة مَا قَالُوا ؛ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ وَلَهَا وَلَدٌ صَغِيرٌ: ۲۳۸/۵) وَلِلرِّجَالِ مِنْ الْعَصَبَاتِ مَدْخَلٌ فِي الْحَضَانَةِ ، وَأَوْلَاهُمْ الْأَبُ ، ثُمَّ الْجَدُّ أَبُو الْأَبِ وَإِنْ عَلَا ، ثُمَّ الْأَخُ مِنْ الْأَبَوَيْنِ ، ثُمَّ الْأَخُ مِنْ الْأَبِ ، ثُمَّ بَنُوهُمْ وَإِنْ سَفَلُوا ، عَلَى تَرْتِيبِ الْمِيرَاثِ ، ثُمَّ الْعُمُومَةُ ، ثُمَّ بَنُوهُمْ كَذَلِكَ ، ثُمَّ عُمُومَةُ الْأَبِ ، ثُمَّ بَنُوهُمْ (المغني كِتَابُ النَّفَقَاتِ۲۴۰/۱۸ )۔ بند