انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** احادیث احکام میں مزید احتیاط ویسے توکوئی روایت بھی جوحضورﷺ کی طرف منسوب ہوکسی غیرثقہ راوی سے نہ لینی چاہئے؛ ایسا نہ ہو کہ حضورﷺ کی ان کہی بات حضورﷺ کی بات بتلادی جائے؛ لیکن حرام وحلال کے باب میں اس سے زیادہ سختی کی گئی ہے؛ یہاں کسی غیرپختہ بات پر ہرگز کوئی اعتماد نہ ہونا چاہیے، حلال وحرام کا غلط فیصلہ پوری شریعت پر ایک بدنما داغ اور صاحب شریعت پر ایک بڑا افتراء ہے اور پھر مسئلہ حلال وحرام سے متعلق تواور بھی احتیاط ضروری ہے، عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں: "اذا روینا عن النبیﷺ فی الحلال والحرام والاحکام شددنا فی الاسانید وانتقدنا فی الرجال واذا روینا فی الفضائل والثواب والعقاب سھلنا فی الاسانید وتسامحنا فی الرجال"۔ (فتح المہلم:۱/۸) ترجمہ:جب حضوراکرمﷺ سے ہمیں کوئی روایت پہنچے جوحلال وحرام اور احکام کے بارے میں ہوتوہم سند کی تحقیق اور راویوں کی تنقید میں سختی کرتے ہیں، فقط فضائل اور ثواب وعقاب کی بات ہوتوسند میں ہم نرمی سے کام لیتے ہیں اور راویوں سے ہم درگزر کرکے چلتے ہیں۔ خطیب بغدادی لکھتے ہیں: "قدورد عن غیرواحد من السلف انہ لایجوز حمل الاحادیث المتعلقۃ بالتحلیل والتحریم الاعمن کان بریئاً من التھمۃ بعیداً من المظنۃ"۔ (لکفایہ فی علوم الروایہ:۱۳۳) ترجمہ:سلف میں کئی بزرگوں سے منقول ہے کہ وہ احادیث جن میں حلت وحرمت کا بیان ہو وہ انہی راویوں سے قبول کی جائیں جوتہمت سے بری اور غلط گمان سے بچے ہوئے ہوں۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے بھی منقول ہے کہ حلال وحرام کی بحث میں نہایت مضبوط قسم کے راوی ہونے چاہئیں۔