انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسلمانوں کی حکمت عملی حضرت ابوبکر صدیق نے جب لشکر اسامہؓ کو شام کی طرف روانہ کیا تھا تو وہ ایرانیوں سے غافل نہ تھے،اُنہوں نے اس خطرناک حالت اور ان تشویش افزاایام میں جب کہ خود مدینہ منورہ کی حفاظت اورملک عرب کے صوبوں میں فتنۂ ارتداد کے مٹانے کے لئے فوجوں کی بے حد ضرورت تھی،ایک چھوٹا سا دستہ مذکورہ بالا گیارہ لشکروں کی روانگی سے پہلے مثنیٰ بن حارثہؓ شیبانی کی سرداری میں عراق کی جانب روانہ کردیا تھا اور مثنیٰ کو حکم دیا تھا کہ عراق میں پہنچ کر کسی بھی جگہ جم کر لڑائی کی تمہید نہ ڈالیں ؛بلکہ بطریق چپا دل چھاپے مارتے اورعراقی رئیسوں کو ڈراتے رہیں،اس سے مدعا صدیق اکبرؓ کا یہ تھا کہ جب تک ملکِ عرب کا فتنہ ارتداد فرو ہو اس وقت تک ایرانیوں کو ملک عرب پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوسکے اور وہ مسلمانوں کی پریشانیوں اور مصیبتوں سےپورے طور پر واقف نہ ہوسکیں یہی مقصد صدیق اکبرؓ نے لشکر اسامہؓ کے ذریعہ حاصل کرنا چاہا تھا کہ رومی لوگوں کو عرب کی جانب حملہ آور ہونے کی یکایک جرأت نہ ہوسکے جب نجد ویمامہ کے حالات قابو میں آگئے تو صدیق اکبرؓ نے عیاض بن غنمؓ کو جو نجد میں مقیم تھے لکھا کہ ان مسلمانوں کو جو مرتد نہیں ہوئے اوراسلام پر قائم رہے اپنے ہمراہ لے کر بالائی عراق پر حملہ آور ہوں اورحضرت خالد بن ولیدؓ کو جو یمامہ میں مقیم تھے لکھا کہ اپنا لشکر لئے ہوئے زیریں عراق کی طرف متوجہ ہوں، راستہ میں جو قبائل یا رؤسا آئے وہ بطیب خاطر مسلمان ہوتے یا اسلامی سیادت میں داخل ہوتے گئے،حکمِ صدیقی کی تصریح کے موافق مقابلہ میں مثنیٰ بن حارثہ اور خالد بن ولیدؓ دونوں آکر مل گئے۔