انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** زیاد بن ابی سفیان زیاد کی ماں سمیہ حارث بن کلاب ثقفی کی لونڈی تھی، زیاد کے باپ کی نسبت لوگوں کوکچھ شبہ تھا، حقیقت یہ تھی کہ سمیہ کے ساتھ ابوسفیان نے زمانہ جاہلیت میں نکاح کیا تھا اور ابوسفیان کے نطفہ سے زیاد کی پیدائش ہوئی تھی، زیاد کی شکل وصورت بھی ابوسفیان سے بہت مشابہ تھی؛ لیکن ابوسفیان کے خاندان والے اور امیرمعاویہ زیاد کوابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیٹا تسلیم نہ کرتے تھے، زیاد نے جب یہ سنا کہ امیرمعاویہ کوخلیفہ وقت تسلیم کرلیا گیا توانھوں نے بیعت کرنے اور امیرمعاویہ کے خلیفہ تسلیم کرنے میں تامل کیا، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اس موقع پریہی مناسب سمجھا کہ مغیرہ بن شعبہ کوجوزیاد کے دوست بھی تھے، امان نامہ دے کر زیاد کے پاس بھیجیں اور اُن کوابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیٹا تسلیم کرکے اپنے خاندان اور نسب میں شامل کرلیں؛ چنانچہ مغیرہ بن شعبہ امان نامہ لے کرزیاد کے پاس فارس گئے اور وہاں کے تمام حساب وکتاب اور خزانہ کی تصدیق کرکے زیاد کواپنے ہمراہ امیر معاویہ کے پاس لے آئے، امیرمعاویہ نے زیاد کی خوب آؤبھگت کی، ان کواپنا بھائی تسلیم کیا، تمام تحریروں میں ان کا نام ابی سفیان لکھا جانے لگا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ زیاد کوابی سفیان کا بیٹا یقین کرتے تھے؛ کیونکہ ان کے سامنے ابی سفیان نے خود ایک موقع پرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تسلیم کیا تھا کہ زیاد میرا بیٹا ہے؛ اسی لیے انھوں نے زیاد کوفارس کا حاکم مقرر کیا تھا، اب امیرمعاویہ نے زیاد کی عزت اور مرتبہ بڑھاکر زیاد کوبصرہ کا گورنر مقرر فرمایا اور اہلِ بصرہ کے درست کرنے اور درست رکھنے کی فرمائش کی، زیاد نے بصرہ میں پہنچ کراہلِ بصرہ کوجامع مسجد میں مخاطب کرکے ایک نہایت زبردست تقریر کی، اہل بصرہ اس زمانے میں زیادہ ناہموار ہوگئے تھے اور چوریوں، ڈکیتیوں اور بغاوتوں کا بہت زور تھا، زیاد نے بصرہ میں جاتے ہیں مارشل لاء جاری کردیا اور حکم دیا کہ جوشخص رات کواپنے گھرسے باہر راستے یامیدان میں دیکھا جائے گا وہ فوراً بلاسماعت عذر قتل کردیا جائے گا؛ چنانچہ اس حکم کی بڑی سختی سے تعمیل ہوئی اور چند روز کے بعد اہل بصرہ کے تمام بل تکلے کی طرح نکل گئے۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بصرہ میں زیاد کواور کوفہ میں مغیرہ کومقرر فرماکرعراق وفارس کی طرف سے بہت مطمئن ہوگئے تھے؛ کیونکہ ایران کے تمام صوبے کوفے اور بصرہ کے ماتحت تھے، زیاد کی حکومت امیرمعاویہ نے براہِ راست فارس، جزیرہ اور سجستان تک وسیع کردی تھی اور یہ تمام علاقے گورنربصرہ کی حکومت میں شامل کرکے مشرقی فتنوں کا سدباب انھوں نے کردیا تھا، خوارج کے فتنے آئے دن عراق وفارس میں برپا ہوتے رہتے تھے؛ لیکن زیاد ومغیرہ دونوں نے ان فتنوں کوبڑی قابلیت اور ہمت کے ساتھ فرو کیا اور کوئی ایسی نازک حالت پیدا نہ ہونے دی جس سے امیرمعاویہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہو، زیاد نے اپنے متعلقہ علاقوں میں صرف سختی سے ہی کام نہیں لیا؛ بلکہ جہاں کہیں نرمی اور محبت کی ضرورت ہوتی تھی وہاں نرمی اور رعایت سے بھی کام لیتے تھے، ایک مرتبہ ان کومعلوم ہوا کہ ابوالخیر جوایک بہادر اورعقلمند شخص ہے، خوارج کا ہم خیال ہوگیا ہے؛ انھوں نے فوراً ابوالخیر کوبلایا اور جندی مابور کا عامل مقرر کرکے بھیج دیا اور اس طرح پیش آنے والے خطرہ کا نہایت عمدگی کے ساتھ سدباب ہوگیا۔ مصر کے حاکم حضرت عمروبن العاص سنہ۴۳ھ میں فوت ہوئے، ان کی جگہ حضرت امیرمعاویہ نے ان کے بیٹے عبداللہ بن عمرو کومصر کا حاکم مقرر کیا؛ اسی سال کوفہ میں خوارج نے یہ دیکھ کرکہ مغیرہ بن شعبہ زیاد بن ابی سفیان کی طرح زیادہ سختی نہیں کرتے اور چشم پوشی سے بہت کام لیتے ہیں، بغاوت کے لیے ایک سازش شروع کی، مغیرہ بن شعبہ کی جگہ اگرکوفہ میں زیاد بن ابوسفیان ہوتے توخوارج کواس سازش کی جرأت نہ ہوتی، زیاد بن ابی سفیان خوارج کی نبض کوخوب پہچانتے تھے اور بصرہ والوں کوانھوں نے اچھی طرح سیدھا کردیا تھا، مستورد بن علقمہ کی سرداری میں تین سوسے زیادہ خوارج یکم شوال سنہ۴۳ھ کوعین عیدالفطر کے روز کوفہ سے نکلے، مغیرہ نے ان تین سوکی گرفتاری کے لیئے تین ہزار کا لشکر بھیجا، مقابلہ ہوا اور تین سوخوارج نے تین ہزار کے لشکر کوشکست دی، اس کے بعد اور فوج بھیجی گئی اور اس کوبھی شکست ہوئی، بالآخر معقل بن قیس کی سرداری میں ایک زبردست لشکر مغیرہ نے روانہ کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ معقل بن قیس اور مستوردبن علقمہ دونوں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے اور خوارج کے پانچ آدمیوں کے سوا سب کے سب کھیت رہے، اس واقعہ کا یہ اثر ہوا کہ خوارج کی طرف سے مغیرہ بن شعبہ زیادہ چوکس رہنے لگے۔ قیصرِروم کی طرف سے ملکِ شام کی شمالی سرحدوں کوہمیشہ خطرہ رہتا تھا، شام کے ساحل پربحری حملوں کا بھی اندیشہ تھا، مصروافریقہ پربھی رومیوں کی بحری چڑھائیاں ہوتی رہتی تھیں، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے مشرقی مسائل کی طرف سے مطمئن ہوکر رومی خطرہ کی طرف اپنی تمام ترہمت صرف کی، بحری فوج تیار کی، بحری فوج کے سپاہیوں کی تنخواہیں زیادہ مقرر کیں؛ تاکہ بحری فوج میں داخل ہونے کی لوگوں میں ترغیب ہو، قریباً دوہزار جنگی کشتیاں تیار کرائیں، جنادہ بن امیہ کوبحری فوج کا سپہ سالار یاامیرالبحر مقرر فرمایا، بری فوج کوپہلے سے زیادہ مضبوط کیا، انتظامی فوج کے علاوہ مصافی فوج ایور جارحانہ پیش قدمی کرنے والی فوج کا جداگانہ انتظام کیا، اس فوج کے دوحصے بنائے، ایک کانام شانیہ یعنی سرمائی فوج رکھا اور دوسری کا نام صائفہ، یعنی گرمائی لشکر تجویز کیا، گرمی وسردی دونوں موسموں میں بری فوج سرحدوں پررومی لشکر کوہٹانے اور دبانے میں مصروف رہنے لگی، ادھر بحری لشکر نے قبرص ورڈس وغیرہ جزیروں کواپنا مستقرومرکز بناکرقیصر کے جہازوں کوبحرروم سے بے دخل کرکے مصرف وشام کے ساحلوں کوبحری حملے سے محفوظ کردیا سنہ۴۳ھ میں سجستان کے ملحقہ علاقے رحج وغیرہ فتح ہوئے؛ اسی سال برقہ وسوڈان کی طرف اسلامی لشکر نے پیش قدمی کی اور ان علاقوں میں حکومتِ اسلامیہ کا رقبہ بہت وسیع ہوا۔