انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دوسری صدی ہجری میں حدیثی خدمات تابعین کرام کے بعد یہ سعادت تبع تابعین کے ممتاز اہل علم کو ملی اوران کی محنتوں سے حدیث مستقل کتابوں میں جمع ہونے لگی،جوائمہ علم اس باب میں گوئے سبقت لے گئے،ان میں موسیٰ بن عقبہ(۱۴۴ھ) صاحب مغازی ابن جریج رومی (۱۵۰ھ) مکہ مکرمہ میں معمر بن راشد (۱۵۴ھ) یمن میں امام اوزاعی (۱۵۷ھ) شام میں سعید بن عروبہ (۱۵۶ھ) مدینہ میں ابن ابی ذئب (۱۵۹ھ) ربیع بن صبیح (۱۶۰ھ) مدینہ میں حماد بن سلمہؒ (۱۶۷ھ) مدینہ میں امام مالکؒ (۱۷۹ھ) کوفہ میں سفیان الثوریؒ (۱۸۱ھ) اورامام ابویوسفؒ (۱۸۲ھ) اور امام محمدؒ (۱۸۹ھ) ہشیم بن بشیرؒ (۱۸۳ھ)اور امام عبداللہ بن مبارکؒ (۱۸۲ھ) معتمر بن سلیمانؒ (۱۸۷ھ) صاحب مغازی جریر بن عبدالحمید رازیؒ (۱۸۸ھ) امام وکیع بن الجراحؒ (۱۹۶ھ) اور سفیان بن عینیہؒ (۱۹۸ھ) بہت معروف اور ممتاز ہیں۔ یہ سب حضرات تقریبا ایک زمانے کے ہیں، یہ نہیں کہا جاسکتا ؛کہ حدیث کی باقاعدہ کتاب لکھنے میں ان میں سے کون بزرگ اولیت کا شرف رکھتے ہیں، ان میں سے تین نام سر فہرست ہیں: ابن جریجؒ (۱۵۰ھ) کی کتاب الآثار، معمربن راشدؒ (۱۵۴ھ) کی الجامع اورامام مالکؒ (۱۷۹ھ) کی کتاب موطا مالک، مولانا عبدالحیی لکھنوی کی رائے ہے کہ حدیث کی سب سے پہلی باقاعدہ کتاب، کتاب الآثار ہے،جامع معمر کا ایک نسخۃ انقرہ میں اورایک استنبول میں مخطوطات میں موجود ہے، معمر حضرت ہمام بن منبہ کے شاگرد تھے،ان کی تالیف صحیفہ ہمام بن منبہ اس وقت شائع شدہ ہے اور حدیث کی جو کتابیں اس وقت ملتی ہیں ان میں اول ترین ہے، اس کے بعد حدیث کی جو کتابیں ملتی ہیں ان میں سے موطا امام مالک حدیث کی پہلی کتاب ہے، اس سے پہلے کی جو تحریرات حدیث اب شائع ہو رہی ہیں، وہ در حقیقت مخصوص دستاویزات یا کسی شیخ کی مرویات یا بعض جزئی احکام کی تحریری یاداشتیں ہیں، حدیث کی باقاعدہ کتابی صورت موطا امام مالک سے ہی شروع ہوتی ہے،ان کے بعد یہ شرف امام ابو یوسف اورامام محمد کو حاصل ہے؛ جنہوں نے کتاب الآثار کو ابواب فقہیہ پر مرتب کیا؛ اس میں مخالف و موافق ہر طرح کی حدیثیں جمع کیں اور تحقیق و اجتہاد میں نئے ابواب کا اضافہ کیا قاضی ابو یوسف منصف فی الحدیث کہے جاتے ہیں،امام محمدکی کتاب الحجہ علی اہل المدینہ اورموطا امام محمد بھی اس دور کی یاد گار کتابیں ہیں۔ اس دور کے بعد پھر دور مسانید آتا ہے جس میں صحابہ کے نام پر ان کی مرویات جمع کی گئیں، حدیث کی ان کتابوں کو مسند کہتے ہیں، مسند ابی داؤد طیالسیؒ (۲۰۴ھ) مسند امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) مسند اسد بن موسی الامویؒ (۲۱۲ھ) مسند عبداللہ بن موسیٰ (۲۱۳ھ) نعیم بن حماد الخزاعیؒ (۴۲۸ھ) اسحاق بن ماہویہ (۲۳۸ھ) عثمان بن ابی شیبہؒ (۲۳۹ھ) اورامام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) سر فہرست ہیں۔