انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حیات طیبہ۶۲۰ء معراج حضور ﷺ کو معراج ہوئی، یعنی آپﷺ آسمانوں پر تشریف لے گئے، معراج کی تاریخ میں کافی اختلاف ہے، اس کے بارے میں علماء کے کئی قول ہیں: ۱-جس سال حضور ﷺ کو نبوت دی گئی اسی سال معراج ہوئی- (طبری) ۲-ہجرت سے چھ ماہ قبل ۳-ہجرت سے آٹھ ماہ قبل ۴-ہجرت سے گیارہ ماہ قبل ۵-ہجرت سے ایک سال قبل ۶-ہجرت سے ایک سال دو مہینے پہلے ۷-ہجرت سے ایک سال ایک مہینہ پہلے ۸-ہجرت سے پندرہ مہینے قبل ۹-ہجرت سے دیڑھ سال قبل ۱۰-ہجرت سے تین سال قبل ۱۱-ہجرت سے پانچ سال قبل، (فتح الباری باب المعراج بحوالہ سیرت احمد مجتبی) ان میں سے آٹھ اقوال میں یہ بتلایا گیا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد اور بیعت عقبہ سے پہلے معراج ہوئی ، تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی فرضیت معراج کی شب ہوئی اور حضرت خدیجہ ؓ نماز پنجگانہ فرض ہونے سے پہلے وفات پا گئیں،یہ بھی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہ رمضان میں ہوئی تھی، اس طرح معراج حضرت خدیجہ ؓ کی وفات اور طائف کے سفر سے واپسی کے بعد کسی مہینہ میں ہوئی ، ابن حزم نے یہی لکھا ہے، علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد حضور ﷺپر نماز فرض کی گئی ، حضرت جبریل امین آئے اور وضو کرکے تمام ارکان و افعال کے ساتھ نماز پڑھ کر دکھائی، آپﷺ نے ان کی پیروی کی ، اس کے بعد حضور ﷺ معراج کی شب مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور پھر وہاں سے ساتویں آسمان اور سدرۃ المنتہیٰ کی جانب تشریف لے گئے( سیرت النبی صلم - علامہ عبدالرحمن ابن خلدون) لیکن عام خیال ہے کہ معراج ماہِ رجب کی ستائیسویں شب کو ہوئی،قرآن مجید میں تین مقامات پر معراج کا ذکر ہے ، سورۂ بنی اسرائیل میں دو جگہ اور سورۂ نجم میں ایک جگہ، سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں فرمایا گیا : " پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندہ کو مسجد حرام ( خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس) تک جس کے گرد اگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیاتا کہ ہم اسے اپنی( قدرت) کی نشانیاں دکھائیں ، بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے" (سورہ بنی اسرائیل:۱) اسی سورہ بنی اسرائیل کی ۶۰ ویں آیت میں فرمایا گیا : " اور اے پیغمبر وہ وقت یاد کر و جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارا پروردگار لوگوں کو گھیرے ہوئے ہے اور وہ دکھاوا جو ہم نے تم کو دکھلایا اس کو لوگوں کے لئے آزمائش قرار دیا اور اسی طرح وہ درخت جس کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے (آزمائش کیلئے تھا ) اور ہم ان لوگوں کو ( طرح طرح سے ) ڈالے ہیں لیکن ان کی شرارتوں میں اور زیادتی ہوتی ہے ( بنی اسرائیل :۶۰) " اور وہ خواب جو ہم نے تمھیں دکھایا اور وہ خبیث درخت جس کا ذکر قرآن میں ہے ان سب کو لوگوں کے لئے فتنہ بنا دیا" (بنی اسرائیل:۶۰) تیسری جگہ سورۂ نجم کی ابتدائی آیا ت میں اس کا ذکر فرمایا گیا: " اور وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا ، پھر اور زیادہ قریب ہوا تو دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم، پھر اﷲ نے اپنے بندے (محمد) کی طر ف وحی بھیجی جو کچھ کہ بھیجی، جو کچھ انھوں نے دیکھا اس کو ان کے دل نے جھوٹ نہ جانا، کیا جو کچھ انھوں نے دیکھا تم اس کے بارے میں ان سے جھگڑتے ہو اور انھوں نے اس کو ایک اور درفعہ بھی دیکھا ہے، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس، اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے جب کے اس سدرۃ المنتہیٰ پر چھا رہاتھا جوکچھ چھا رہا تھا، ان کی نگاہ نہ تو بہکی اور نہ (حدسے) آگے بڑھی ، انھوں نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) بڑ ی بڑی نشانیاں دیکھیں" (سورہ نجم:۷ تا ۱۸) واقعہ کی تفصیل جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک رات حضور اکرمﷺ آرام فرمارہے تھے کہ دو فرشتے جبریل اور میکائیل آئے، آپﷺ کو بیدار کیا اور اپنے ساتھ حرم کعبہ میں لائے، وہاں انھوں نے حضورﷺ کا سینہ چاک کر کے دل کو آبِ زم زم سے دھویا اور اپنے مقام پر رکھ دیا،پھر حضور ﷺ کو صفا و مروہ کے درمیا ن لائے جہاں بُرّاق کھڑا تھا، وہ اونٹ سے کم اور دراز گوش سے بڑا تھا ، اس کا چہرہ آدمی کی طرح ، کان ہاتھی کے مانند، گردن اونٹ سی، بال گھوڑے کے مثل، کمر شیر جیسی، پیر گائے کے سے، سینہ یاقوتِ سرخ کے دانہ کے مانند تھا، ران پر دو پر تھے، زین بندھی تھی، اس جنتی بُرّاق کانام جارود تھا، جبرئیل ؑ اور میکائیل ؑ نے حضورﷺ کو براق پر سوار کر وایا اور روانہ ہوئے ، دائیں بائیں فرشتوں کی جماعتیں تھیں، راستہ میں کھجور کے درختوں کے جُھنڈ نظر آئے ، جبرئیل ؑ نے کہا :یہ آپ ﷺ کا دارالہجرت ہے ،یہاں اتر کر آپﷺ نے دو رکعت نفل نماز پڑھی، پھر جبرئیل ؑ نے طور ِ سینا پر براق کو روکا جہاں آپﷺنے دو رکعت نماز پڑھی، آپﷺ کی تیسری منزل بیت اللحم تھی جس کے بار ے میں حضرت جبرئیل ؑ نے بتلایاکہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش ہے، وہاں بھی آپﷺ نے نماز پڑھی، وہاں سے بیت المقدس آئے جہاں مسجد اقصیٰ تھی ، وہاں آپﷺ براق سے اترے ، استقبال کے لئے فرشتوں کی کثیر تعداد تھی جن کی زبانوں پر " السلام علیک یا رسول اللہ،یا اول ، یا آخر ، یا حاشر" تھا، مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء آپﷺ کے منتظر تھے، وہاں آپﷺ نے نماز میں تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی، حضرت جبرئیل ؑ بھی مقتدیو ں میں تھے، بعد ختم نماز آپﷺنے پیغمبروں سے ملاقات فرمائی، جب آپﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپﷺ کے سامنے تین پیالے پیش کئے جن میں سے ایک میں دودھ ، دوسرے میں شراب اور تیسرے میں پانی تھا ، آپﷺ نے دودھ کا پیالہ اُٹھا لیا، جبریل ؑ نے عرض کیا: حضور ﷺ کو فطرت سلیمہ کی طرف ہدایت نصیب ہوئی،یہ سفر کی پہلی منزل تھی اس کو" اسرا ء" بھی کہا جاتا ہے ، اس کے بعد سفر کی دوسری منزل شروع ہوئی جو اصل معراج ہے،(سیرت طیبہ - قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی) وہاں سے جبرئیلؑ آپﷺ کو صخرہ پر لائے جہاں سے فرشتے آسمانوں کی طرف پرواز کرتے ہیں، وہاں ایک سیڑھی نمودار ہوئی، آپﷺ آسمان پر پہنچے تو ایک بزرگ ہستی سے ملاقات ہوئی جن کے بارے میں جبرئیل ؑ نے بتلایاکہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں، آپﷺ نے انہیں سلام کیا اور حضرت آدم ؑ نے جواب دیا اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔ پہلے آسمان سے آپﷺ دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے جہاں دو نوجوان پیغمبروں حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، دونوں کو آپﷺ نے سلام کیا اور دونوں نے جواب دیا اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام ، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، آپﷺ نے تمام پیغمبروں کو سلام کیا انھوں نے جواب دیا… مبارک باد دی اور آپﷺ کی نبوت کااقرار کیا،وہاں سے آپﷺ کو ساتویں آسمان پر لے جا یا گیا جہاں آپﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی ، آپﷺ نے انھیں سلام کیا ، انھوں نے جواب دیا اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا، اس کے بعد آپﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا اور بیت المعمور دکھلایاگیا جو فرشتوں کا کعبہ ہے اور زمین پر کعبہ کے عین اوپر واقع ہے، وہاں ایک وقت میں ستر ہزار فرشتے طواف کررہے تھے،سدرہ ایک بیری کا درخت ہے، اس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر اور پھل مٹکوں کی طرح تھے، فرشتے جگنوؤں کی طرح ان پتوں پر تھے، انھوں نے حضور ﷺ کا دیدار کیا، سِدرہ کی جڑ سے چار نہریں پھوٹ رہی تھیں دو ظاہر اور دو پوشیدہ ، حضرت جبرئیل ؑ نے بتلایاکہ جو ظاہر ہیں وہ دجلہ اور فرات ہیں اور جو پوشیدہ ہیں وہ جنت کی نہریں کوثر اور سلسبیل ہیں ،یہاں آپﷺ کی خدمت میں شراب ،دودھ اور شہد کے پیالے پیش کئے گئے ، آپﷺ نے دودھ کا پیالہ اٹھالیا، جبرئیل ؑ نے کہا یہ فطرت کی جانب رہنمائی ہے جو آپﷺ کی امت کا طرۂ امتیاز ہے۔ (مصباح الدین شکیل سیرت احمد مجتبیٰ) سدرۃ المنتہیٰ عالم خلق اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حدِّ فاصل ہے، اس کے آگے عالمِ غیب ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ، یہیں پر جنت الماویٰ ہے جس کا ذکر سورۂ نجم میں ہے، حضور اکرم ﷺ جنت میں داخل ہوئے ، حضرت جبرئیل سدرہ سے کچھ آگے رُ ک گئے اور عرض کیاکہ اگر اس مقام سے بال برابر بھی بڑھوں تو جل کر خاک ہو جاؤں ، اب آپﷺ کا اور آپﷺ کے رب کا معاملہ ہے ، حضور ﷺ سجدے میں گر پڑے اس مقام پر سبز رنگ کا ایک تخت ظاہر ہوا جس کا نام رفرف ہے ، اس کے ساتھ ایک فرشتہ تھا، حضرت جبرئیل ؑ نے حضور ﷺ کو اس فرشتہ کے سپردکیا، آپﷺ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے ، حضورﷺ نے عرض کیا : التحیات ُللہ و الصَّلوٰت و الطّیّبٰتُ( تمام قولی ، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لئے ہیں) اللہ تعالیٰ کا جواب آیا: السلام علیک ایُّھا ا لنبی و رَحمتہُ ا للّٰہ وَ بَر کا تُہٗ(سلام ہو آپ پراے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں) آنحضرتﷺ نے دوبارہ عرض کیا ، السلام علینا وَ عَلیٰ عبادِ ا للّٰہ اللصٰلحینِ(سلام ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر ) اس پر حضرت جبرئیل ؑ اور ملائکہ کی آواز سنائی دی، اَ شْھَدُ اَن لا اِلٰہ الا اللہ وَ اَشْھَدُ اَنَّ محمداً عبدہٗ و رسولُہٗ،(میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں)۔ معراج میں اُمت کے لئے پچاس نمازیں فرض کی گئیں، واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ مجھے اپنی اُمت کا تجربہ ہے، اس کی پا بجائی آپﷺ کی امت سے بھی نہ ہو سکے گی، چنانچہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کی جو کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں ؛لیکن اس کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر رکھا گیا، سدرۃ المنتہیٰ سے آپﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے او ر وہ سبز رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے داروغہ جہنم کو دیکھا جو نہ ہنستا تھا اور نہ اس کے چہرہ پر خوشی کی علامت تھی ، آپﷺ نے جنت و جہنم بھی دیکھی ، آپﷺ نے ان لوگوں کو دیکھا جو یتیموں کا مال ظلم کرکے کھا جاتے تھے، ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگارے ٹھونس رہے تھے جو ان کی پاخانہ کی راہ سے نکل رہے تھے،آپﷺ نے سود خواروں کو دیکھا جن کے پیٹ اتنے بڑے تھے کہ وہ حرکت نہیں کر سکتے تھے،آپﷺ نے زنا کاروں کو بھی دیکھا جن کے سامنے تازہ گوشت اور سڑے ہوئے چھچڑے بھی تھے ، وہ تازہ گوشت چھوڑ کر سڑے ہوئے چھچڑے کھا رہے تھے،آپﷺ نے ان عورتوں کو بھی دیکھا جو زنا کے ذریعہ حاملہ ہوتی ہیں اور ان سے ہوئی اولاد کو اپنے شوہروں کی اولاد میں داخل کرلیتی ہیں، آپﷺ نے دیکھا کہ ایسی عورتوں کے سینہ میں بڑے بڑے ٹیڑھے کانٹے چبھو کر انھیں زمین و آسمان کے درمیا ن لٹکایا گیا ہے،آپﷺ نے آتے جاتے ہوئے مکہ والوں کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انھیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا ، آپﷺ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا، اس وقت قافلہ سو رہا تھا ، پھر آپﷺ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپﷺ کے دعوے کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔ (الرحیق المختوم - مولانا صفی الرحمن مبارکپوری) علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ جب صبح میں حضور ﷺ نے حرم میں یہ واقعہ سنایا تو کفار نے اس کی تکذیب کی اور کہا کہ مکہ سے بیت المقدس جانے کے لئے ایک مہینہ اور واپس آنے کے لئے ایک مہینہ کا عرصہ لگتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سفر راتوں رات طئے کر لیا جائے اور آپﷺ آسمان پر بھی جا کر آئیں ، جب حضرت ابو بکر ؓ نے یہ بات سنی تو کہا کہ اگر حضورﷺ یہ بات فرمائی ہے تو بالکل سچ ہے اور میں اس واقعہ کی تصدیق کرتا ہوں ، جب آپﷺ سے کفارقریش نے سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ بیت المقدس میرا دیکھا ہوا ہے ، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو آپﷺ کے سامنے رکھ دیا جسے دیکھ کر آپ تفصیل بیان کرنے لگے ، حضور ﷺ تفصیل بیان کرتے جاتے تھے اور حضرت ابوبکرؓ اس کی تصدیق کرتے جاتے تھے ، اس موقع پر حضور ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا ، کفار مکہ جنہوں نے اس واقعہ کی تکذیب کی تھی یہ سن کر سخت حیران ہوئے۔ آپﷺ نے جاتے اور آتے ہوئے ان کے قافلہ سے ملنے کا ذکر بھی فرمایا اور بتلایا اس کی آمد کا وقت کیاہے ، آپﷺ نے اس اونٹ کی بھی نشاندہی کی جو قافلہ کے آگے آگے آرہا تھا، جیسا کچھ آپ ﷺ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا۔