انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عُمال کا عزل ونصب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی خلافت کے تیسرے چوتھے ہی دن حضرت عثمانؓ کے زمانے کے تمام عاملوں اور والیوں کی معزولی کا فرمان لکھوایا اوران والیوں اور عاملوں کی جگہ دوسرے لوگوں کا تقرر فرمایا،یہ سُن کر حضرت مغیرہ بن شعبہؓ جو بڑے مدبر ودور اندیش اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قریبی رشتہ دار تھے،حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے طلحہؓ وزبیرؓ اور دوسرے قریش کو جو مدینہ سے باہر جانے کی ممانعت کردی ہے اوران کو روک لیا ہے،اس کا اثر یہ ہوگا کہ تمام قریش آپ ؓ کی خلافت کو اپنے لئے باعث تکلیف سمجھیں گے اوران کو آپ کے ساتھ ہمدردی نہ رہے گی، دوسرے آپؓ نے عہد عثمانی کے عاملوں کو معزول کرنے میں عجلت سے کام لیا ہے مناسب یہ ہے کہ آپ ؓ اب بھی اپنے روانہ کئے ہوئے عاملوں کو واپس بلوالیں اورانہیں عاملوں کو اپنے اپنے علاقوں میں مامور رہنے دیں اوران سے صرف بیعت واطاعت کا مطالبہ کریں۔ حضرت علیؓ نے مغیرہؓ کی اس گفتگو کو سُن کر اس کے تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا،اگلے دن جب مغیرہؓ کے برادر عمزاد اورحضرت عبداللہ بن عباسؓ بھی حضزت علیؓ کی خدمت میں موجود تھےآئے اورعندالتذکرہ انہوں نے اپنی پہلی رائے کے خلاف حضرت علیؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ؓ کو عُمال عثمانؓ کے معزول کرنے میں بہت عجلت سے کام لینا چاہئے، جب مغیرہؓ اس مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ مغیرہؓ نے کل آپ کو نصیحت کی تھی اورآج دھوکا دیا ہے،حضرت علیؓ نے کہا کہ پھر آپ کی رائے کیا ہے،عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ مناسب تو یہ تھا کہ شہادت عثمانؓ کے وقت آپ مکہ سے چلے جاتے ؛لیکن اب مناسب یہی ہے کہ عمال عثمانؓ کو بحال رکھو،یہاں تک کہ آپ کی خلافت کو استقلال واستحکام حاصل ہوجائے اوراگر آپ ؓ نے عمال عثمانؓ کے تبدیل کرنے اور معزول کرنے میں جلدی کی تو بنو امیہ لوگوں کو دھوکا دیں گے کہ ہم قاتلین عثمانؓ سے قصاص طلب کرتے ہیں جیسا کہ اہلِ مدینہ بھی کہہ رہے ہیں،اسی طرح لوگ ان کے شریک ہوجائیں گے اورآپ کی خلافت کا شیرازہ درہم برہم ہوکر کمزور ہوجائے گا۔ یہ سن کر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں معاویہؓ کو صرف تلوار کے ذریعہ سیدھا کروں گا ،کوئی رعایت نہ رکھوں گا،ابن عباسؓ نے کہا کہ آپ ایک بہادر شخص ضرور ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: الحرب خدعۃ اگر آپ میرے کہنے پر عمل کریں تو میں آپ کو ایسی تدبیر بتاؤں کہ بنو امیہ سوچتے ہی رہ جائیں اوران سے کچھ نہ بن پڑے،حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مجھ میں نہ تو تمہاری خصلتیں ہیں نہ معاویہؓ کی سی، حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تم اپنا مال واسباب لے کر ینبوع چلے جاؤ اور وہاں دروازہ بند کرکے بیٹھ جاؤ،عرب لوگ خوب سرگرداں وپریشان ہوں گے ؛لیکن آپ کے سوا کسی کو لائق امارت نہ پائیں گے اوراگر تم ان لوگوں یعنی قاتلین عثمانؓ کے ساتھ اٹھو گے تو لوگ تم پر خونِ عثمان کا الزام لگائیں گے،حضرت علیؓ نے کہا کہ تمہاری بات پر عمل کرنا مناسب نہیں سمجھتا؛بلکہ تم کو میری بات پر عمل کرنا چاہئے ،حضرت ابن عباسؓ نے کہا بے شک میرے لئے یہی مناسب ہے کہ آپ ؓ کے احکام کی تعمیل کروں، حضرت علیؓ نے فرمایا کہ تم کو بجائے معاویہؓ کے شام کا والی بناکر بھیجنا چاہتا ہوں، حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ معاویہؓ حضرت عثمانؓ کا ایک جدی بھائی ہے اور مجھ کو آپ کے ساتھ تعلق و قرابت ہے،وہ مجھ کو شام کے ملک میں داخل ہوتے ہی قتل کرڈالے گا یا قید کردے گا،مناسب یہی ہے کہ معاویہؓ سے خط وکتابت کی جائے اورکسی طرح بیعت لے لی جائے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس بات کے ماننے سے انکار فرمادیا ،مغیرہ بن شعبہؓ نے دیکھا کہ حضرت علیؓ نے ان کے مشورہ پر عمل نہیں کیا اور حضرت ابن عباسؓ کے مشورہ کو بھی رد کردیا تو وہ ناراض ہوکر مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف چلے گئے۔