انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** متفرق اعتراضات امیر معاویہؓ کے ظلم و ستم اور عدل وانصاف کے اندازہ کرنے میں ایک فاش غلطی یہ کی جاتی ہے کہ ان کے دور کا خلفائے راشدینؓ کے عدل پر ور عہد سے موازنہ کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر معاویہؓ سے پہلے خلافتِ راشدہ کا دور تھا اوراس وقت مسلمانوں کے سامنے اس کے علاوہ اورکسی دنیاوی اسلامی حکومت کا نمونہ موجود نہ تھا اس لئے امیر معاویہؓ کے زمانہ میں بھی جب ان کی نظر اٹھتی تھی تو خلافت راشدہ ہی کی طرف اٹھتی تھی؛حالانکہ دونوں کا موازنہ صحیح نہیں ہے حضرت علیؓ پر خلافت راشدہ کا خاتمہ ہوچکا تھا اور امیر معاویہؓ کے زمانہ سے دنیاوی حکومت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا، اس لئے "اموی حکومت" کو "خلافتِ راشدہ" کے معیار پر جانچنا شدید غلطی ہے اگر امیر معاویہ کے دور کو محض ایک دنیاوی حکومت کے لحاظ سے جانچا جائے تو ان پر سے بہت سے اعتراضات خود بخود اٹھ جاتے ہیں۔ دوسرا غلط مبحث یہ کیا جاتا ہے کہ بنو امیہ کے پورے دور کی برائیاں امیر معاویہؓ کی طرف منسوب کردی جاتی ہیں، یا کم از کم انہیں اس کا بانی مبانی سمجھا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ بھی قرین انصاف نہیں ہے، امیر معاویہؓ کے بعد مروان وغیرہ یقیناً ظالم فرمانروا تھے،لیکن اس کا بانی امیر معاویہؓ کو قرار دینا کہاں تک صحیح ہے کیا دولت امویہ کی تاسیس کے جر م میں تمام اموی فرما نرواؤں کے مظالم بھی امیر معاویہؓ کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے؟ باقی یہ تینوں اعتراضات کہ امیر معاویہؓ نے قومی بیت المال کو ذاتی خزانہ بنالیا اوراس کو ذاتی اغراض میں صرف کرتے تھے،یا حکومت کے تمام شعبوں میں بنی امیہ کو بھردیا تھا اوربہت سی بدعتیں جاری کیں جس معنی اور مفہوم میں کئے جاتے ہیں وہ قطعا ًغلط ہیں اور جس معنی میں صحیح ہیں وہ ایک دنیاوی حکمران کے لئے قابل اعتراض نہیں رہ جاتے اگر معترضین کا مقصد یہ ہے کہ امیر نے بیت المال کا روپیہ عیش وتنعم اورلہو لعب کے مشاغل میں اڑایا اوردوسرے قومی مفاد کو بالکل نظر انداز کردیا تو قطعاً غلط ہے امیر کا بڑے سے بڑا مخالف بھی اس قسم کا الزام ان پر نہیں رکھ سکتا، یہ البتہ صحیح ہے کہ انہوں نے خلفائے راشدین کی طرح فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرکے بیت المال کو خالص اسلامی مفاد کے لئے مخصوص نہیں کردیا؛بلکہ قومی اوراسلامی مفاد کے ساتھ ساتھ اپنے آرام و آسایش اوراپنی حکومت کے استوار کرنے میں بھی صرف کیا اوریہ ایک دنیاوی حکمران کے لئے قابل اعتراض نہیں اس سے کوئی تاریخ دان انکار نہیں کرسکتا کہ بیت المال سے انہوں نے بڑے بڑے قومی کام کئے ،فوجیں تیار کیں ،جنگی بیڑے بنوائے ،فتوحات میں صرف کیا، قلعے تعمیر کرائے، پولیس کو ترقی دی، خبر رسانی کا محکمہ قائم کیا، دفاتر بنوائے ،نہریں کھدوائیں، اسلامی نو آبادیاں قائم کیں ،شہر بسائے ،شرفا اورصحابہؓ کے وظائف مقررکئے،غربا پر تقسیم کیا،عدالتوں پر صرف کیا، ان کے علاوہ اوربہت سے قومی اوراسلامی مفاد میں لگایا جن کی سندیں اوپر گزرچکی ہیں ان وسیع ملکی اور قومی اخراجات کے ساتھ اگر انہوں نے کچھ روپیہ اپنے ذاتی اغراض ومقاصد میں صرف کردیاتو ایک دنیاوی حکمران کی حیثیت سے وہ کس حد تک قابلِ الزام ہیں ،یہ واضح رہے کہ ذاتی اغراض سے مقصد عیش و تنعم نہیں ہے ؛بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی حکومت کے قیام کے لئے روپیہ صرف کرتے تھے اس کو خواہ ملکی مفاد سمجھا جائے ،خواہ ذاتی غرض میں شمار کیا جائے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ امیر بیت المال سے بڑے بڑے صحابہ کو وظائف وعطایادیتے تھے اور وہ اسے قبول کرتے تھے،اگر وہ لوگ اسے صرف بیچا سمجھتے تو کیوں قبول کرتے اوپر مختلف سرخیوں کے ماتحت گزرچکا ہے کہ حضرت زید بن ثابت انصاریؓ،حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عائشہؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن جعفر طیارؓ ،عبداللہ بن عمرؓ اورعقیل ابی طالب وغیرہ میں سے کچھ لوگ مستقل وظائف اورکچھ غیر مستقل عطایا پاتے تھے اورقبول کرتے تھےاگر یہ بزرگ اس مصرف کو ناجائز سمجھتے تو کیوں قبول فرماتے وہ صحابہ جو امیر معاویہؓ پر نکتہ چینی کرتے تھے وہ بھی ان کے قومی اورملکی خدمات اوران کے برمحل مصارف کے مقابلہ میں خاموش ہوجاتے تھے ،حضرت مسورؓ بن مخزمہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ جب ان سے ملا اورسلام کیا تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا، مسور تم ائمہ پر جو طعن کرتےتھے،اب کیوں نہیں کرتے، میں نے کہا اب تذکرے کو جانے دو اورجس ضرورت سے میں آیا ہوں اسے پوری کرو ،معاویہ نے کہا خدا کی قسم میں تمہارے دل کی بات کہلا کر چھوڑوں گا ان کے اس اصرار پر ان کی جو برائیاں تھیں سب میں نے واشگاف بیان کردیں اس پر معاویہ نے کہا مجھے گناہوں سے برأت کا دعویٰ نہیں ہے،لیکن مسور تم بتاؤ کیا تمہارے گناہ ایسے نہیں ہیں کہ اگر تمہیں خدا معاف نہ کرے تو تم ہلاک ہوجاؤ، میں نے کہا ہاں، معاویہ نے کہا :پھر تم کیوں مغفرت خدا وندی کے مجھ سے زیادہ مستحق ہو! پھر خدا کی قسم ایسی حالت میں جبکہ اصلاح بین الناس ،اقامت حدود،جہاد فی سبیل اللہ اور بڑے بڑے بے شمار امورکا بار میرے کندھوں پر ہے جو تمہارے اوپر نہیں ہے اورمیں خدا کے دین پر ہوں، خدا بھلائیوں کو قبول کرتا ہے اوربرائیوں سے درگذر،سن کر میں سونچ میں پڑگیا اورمجھ کو معلوم ہوگیا کہ معاویہ نے مجھ سے مناظرہ کیا اس کے بعد مسور جب معاویہؓ کا تذکرہ کرتے تھے تو ان کے لئے دعائے خیر کرتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۱۹) حکومت کے شعبوں میں بنی امیہ کے بھر نے کا سوال بھی مغالطہ ہے،یہ واقعہ الزام کی صورت میں اسی وقت قابلِ تسلیم ہوسکتا تھا، جب اس سے دوسروں کے حقوق کی پامالی ہوئی ہوتی یا مفاد ملکی کو کوئی صدمہ پہنچا ہوتا اوریہ دونوں باتیں نہ تھیں،امیر کا مخالف بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ان کے زمانہ میں حکومت کے محکموں میں شروع سے آخر تک تمام بنی امیہ ہی بھرے ہوئے تھے اورکسی دوسرے کو مطلق گھسنے نہیں دیا جاتا تھا،واقعہ کا جہاں تک تعلق ہے، بنی امیہ کے ساتھ دوسرے خاندانوں کے افراد بھی عہدوں پر ممتاز تھے یہ البتہ ایک حد تک صحیح ہے کہ جنگی امور میں زیادہ تر بنی امیہ دخیل تھے لیکن یہ خود ان کی ذاتی صلاحیت کا نتیجہ تھا ،بنی امیہ میدان رزم کے مرد تھے،حضرت عثمانؓ اور امیر معاویہؓ کے دور کی فتوحات اس کی شاہد ہیں، بحر روم میں سب سے پہلے امویوں ہی نے بیڑے دوڑائے، افریقہ کو امویوں ہی نے فتح کیا، یورپ کا دروازہ امویوں ہی نے کھٹکھٹایا،اموی اس لئے نہیں بھرے گئے تھے کہ امیر معاویہ کے ہم خاندان تھے؛بلکہ اس لئے بھرے گئے تھے کہ وہ تلوار کے دھنی اورمیدان جنگ کے مرد تھے، یہی وجہ ہے کہ تنہا بنی امیہ کے دور میں جس قدر فتوحات ہوئیں اس کی نظیر مابعد کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی،ایسی حالت میں ان کے حکومت میں بھرنے کا سوال کس قدر ہلکا ہوجاتا ہے۔ رہ گیا بد عات کی ترویج کا سوال تو ایک دنیاوی حکمران کے لئے بھی چنداں قابل اعتراض نہیں، بشیر طیکہ ان بدعات سے کسی اسلامی اصول کی پامالی نہ ہوئی ہواورمذہب میں کسی مذموم رسم کی بنیاد نہ پڑی ہو، امیر کی بدعات میں اسلامی خلافت کو شخص وموروثی حکومت بنادینے کی بدعت تو بے شک نہایت مذموم بدعت تھی،جس نے اسلامی خلافت کی روح مردہ کردی اوراس سے بہت مذموم نتائج پیدا ہوئے؛ لیکن اس کے علاوہ اورکوئی بدعت ایسی نہیں نظر آتی جس سے کسی اصول کو صدمہ پہنچا ہو، حکومت کے سلسلہ میں انہوں نے جو نئی چیزیں رائج کیں ان سے بہت سے فوائد حاصل ہوئے یہ بار بار لکھا جاچکا ہے کہ امیر معاویہ خلیفہ راشد نہ تھے ؛بلکہ حضرت علیؓ پر اس مقدس دور کا خاتمہ ہوچکا تھا اورامیر معاویہؓ کے عہد سے ایک نئے دور حکمرانی کا آغاز ہوا تھا، اس لئے اس میں خلفائے راشدینؓ کا محتاط طرز حکومت ڈھونڈھنا کہ کسی فعل میں عہد نبویﷺ کے طور وطریق سے سر مو تجاوز نہ ہونے پائے، خود اپنی غلطی ہے،امیر معاویہؓ تو امیر معاویہؓ ہیں، خود حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جو خلیفہ راشد تھے بہت سی نئی باتیں رائج ہوگئیں تھیں، اوریہ عہد رسالت کے بعد کا لازمی نتیجہ تھا، جس سے کوئی خلیفہ یا بادشاہ بچ نہیں سکتا تھا، اس لئے امیر معاویہؓ کی بد عات میں ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ ان سے کسی اسلامی اصول کی پامالی تو نہیں ہوئی اگر نہیں ہوئی تو وہ قابل اعتراض نہیں قرار دیئے جاسکتے۔ درحقیقت امیر معاویہؓ کی بعض کمزوریوں اورخلافت اسلامیہ میں وراثت کی بدعت کو چھوڑ کر ان کا دور حکومت ہر حیثیت سے کامیاب تھا، ابن کثیر نے ان کے دور حکومت کی خوبیوں پر یہ جامع تبصرہ کیا ہے ان کے زمانہ میں دشمنوں کے مقابلہ میں جہاد کا سلسلہ قائم اوردین سر بلند تھا،زمین کے ہر حصہ سے ان کے پاس مال غنیمت آتا تھا ،مسلمان ان کی حکومت میں عدل وانصاف اورعفو ودرگذر کے سایہ میں امن وراحت کی زندگی بسر کرتےتھے، (البدایہ والنہایہ:۸/۱۱۹) البتہ ایک صحابی رسول کی حیثیت سے وہ بعض کمزوریوں سے اپنا دامن نہ بچاسکے۔