انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ضروری اخلاق کا بیان یوں توقرآن وحدیث میں تمام اچھے اخلاق اورعمدہ روحانی صفات کی تعلیم دی گئی ہے اور سب برے اخلاق اوربری عادات سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے لیکن یہاں ہم اسلام کی صرف ضروری اوربنیادی درجہ کی چند اخلاقی ہدایتوں کاذکر کرتے ہیں جن کے بغیر کوئی شخص سچامومن اورمسلم نہیں ہوسکتا۔ سچائی اورراست بازی اسلام میں سچائی کی اتنی اہمیت ہے کہ ہر مسلمان کو ہمیشہ سچ بولنے کے علاوہ اس کی بھی تاکید فرمائی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ سچوں کے ساتھ اور سچوں کی صحبت میں رہے قرآن مجید میں ہے: "یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ"۔ (توبہ:۱۱۹) اے ایمان والو!خداسے ڈرواورصرف سچوں کے ساتھ رہو۔ حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشادفرمایا: "جویہ چاہے کہ اللہ ورسول سے اس کو محبت ہو،یااللہ ورسول اس سے محبت کریں،تو اس کولازم ہے کہ جب بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے"۔ (شعب الایمان،باب من سرہ ان یحب اللہ ورسولہ،حدیث نمبر:۱۵۰۲،شاملہ،موقع جامع الحديث) ایک اورحدیث میں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سچائی اختیارکرو؛اگرچہ تمھیں اس میں اپنی بربادی اورموت نظرآئے؛کیونکہ دراصل نجات اورزندگی سچائی ہی میں ہے اورجھوٹ سے پرہیز کرو؛اگرچہ بظاہر اس میں نجات اورکامیابی نظر آئے ؛کیونکہ جھوٹ کا انجام بربادی اورنامرادی ہے"۔ (شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الإيمان ،فصل في ترك الغضب، وفي كظم الغيظ، والعفوعند، حدیث نمبر:۸۱۱۴، شاملہ،موقع جامع الحديث۔ کنزالعمال، روایت نمبر:۶۸۵۶، صفحہ نمبر:۳/۳۴۴شاملہ، موقع یعسوب) ایک روایت میں ہے ،رسول اللہﷺ سے کسی نے پوچھاکہ:"اہل جنت کی کیا علامت ہے؟" آپﷺ نے فرمایا:"سچ بولنا"۔ (مسند احمد، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص،حدیث نمبر:۶۳۵۲، شاملہ، موقع الإسلام) اور اس کے بالمقابل ایک دوسری حدیث میں ہے،آپ نے فرمایا: "جھوٹ بولنا منافق کی خاص نشانیوں میں سے ہے"۔ (مسلم، باب خصال المنافق،حدیث نمبر:۸۸، شاملہ، موقع الإسلام) ایک اورحدیث میں ہے کہ: "کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:کیامومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:ہاں!ہوسکتا ہے پھردریافت کیا گیا:کیا مؤمن بخیل ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:ہاں! ہوسکتا ہے؛ پھرسوال کیاگیا:کیا مؤمن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ پھرسوال کیا گیا:نہیں! (یعنی جھوٹ کی عادت ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی)"۔ (شعب الایمان،باب ایکون المؤمن جبانا،حدیث نمبر:۴۶۲۲، شاملہ، موقع جامع الحدیث) اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ ہمیشہ کے لیے ہم سچائی کو اختیار کریں جو نجات دلانے والی،جنت میں پہونچانے والی اور اللہ ورسول کا محب ومحبوب بنانے والی ہے اور جھوٹ سے مکمل پرہیز کریں جس کا انجام تباہی وبربادی اورخداوررسول کی لعنت اورنارضامندی ہے اور جو منافقوں کی نشانی ہے۔ عہد کی پابندی یہ بھی دراصل سچائی ہی کی ایک خاص قسم ہے کہ جس کسی سے جو عہد کیا جائے اس کو پورا کیا جائے،قرآن وحدیث میں خصوصیت سے اس کی ہدایت اورتاکید فرمائی گئی ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِoاِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْــــُٔـوْلًا"۔ (بنی اسرائیل:۳۴) اوراپنا عہدپوراکرو،یقینا تم سے قیامت میں ہرعہدکی بابت پوچھا جائے گا۔ قرآن شریف ہی میں ایک دوسری جگہ نیکیوں اورنیکوں کے ذکر میں فرمایاگیا ہے: "وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا"۔ (البقرۃ:۱۷۷) اوراللہ کے نزدیک نیک وہ لوگ بھی ہیں جواپنے عہد کو پوراکریں جب عہد کریں۔ حدیث میں ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبوں میں اکثر فرمایاکرتے تھے: "عہد کاپورانہ کرنا منافقوں کی خاص نشانیوں میں سے ہے"۔ (مسلم، باب خصال المنافق،حدیث نمبر:۸۸، شاملہ، موقع الإسلام) گویاحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق عہد شکنی اوروعدہ خلافی ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ امانت داری امانت داری بھی دراصل سچائی اورراست بازی ہی کی ایک خاص قسم ہے اسلام میں اس کی تاکید بھی خصوصیات سے فرمائی گئی ہے،قرآن شریف میں ارشادہے: "اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا"۔ (النساء:۵۸) اللہ تم کوحکم دیتاہے کہ امانتیں امانت والوں کو ٹھیک ٹھیک اداکرو۔ اورقرآن شریف ہی میں دوجگہ پر سچے ایمان والوں کی صفات کے بیان میں فرمایا گیا ہے۔ "وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ"۔ (المؤمنون:۸) اوروہ لوگ جو امانتوں کی اور اپنے عہد کی حفاظت کرتے ہیں(یعنی امانتیں اداکرتے ہیں اورعہدپوراکرتے ہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ اپنے اکثر خطبوں میں برسرمنبر فرمایاکرتےتھے: "لوگو!جس میں امانت کی صفت نہیں ،اس میں گویا ایمان ہی نہیں"۔ (مسند احمد،مسند انس بن مالک رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۱۱۹۳۵، شاملہ، موقع الإسلام) ایک حدیث میں ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: "کسی کی نیکی کا اندازہ کرنے کے لیے صرف اس کے نمازروزہ ہی کو نہ دیکھو (یعنی کسی کے صرف نمازروزہ ہی کو دیکھ کر اس کے معتقد نہ ہوجاؤ)بلکہ یہ چیز دیکھو کہ جب بات کرے توسچ بولےاورجب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس کو ٹھیک ٹھیک اداکرے اور تکلیف اورمصیبت کے دنوں میں بھی پرہیزگاری پرقائم رہے"۔ (مسلم،باب خصال المنافق،حدیث نمبر:۹۰، شاملہ، موقع الإسلام) عزیزو! اگرہم اللہ کے نزدیک سچے مؤمن اور اس کی رحمتوں کے مستحق ہونا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ہر معاملہ میں امانت داری اور ایمانداری اختیار کریں اور عہد کی پابندی کو اپنی زندگی کا اصول بنائیں۔ یادرکھو کہ ہم میں سے جس کسی میں یہ اوصاف نہیں وہ اللہ ورسول اللہﷺ کے نزدیک سچامومن اور پورا مسلمان نہیں۔ عدل وانصاف اسلام نے ہر معاملہ میں عدل وانصاف کی بھی بڑی سخت تاکید فرمائی ہے،قرآن مجید میں ارشاد ہے: "اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ"۔ (النحل:۹۰) اللہ تعالی عدل وانصاف کرنے کا اور احسان کرنےکا حکم دیتا ہے۔ پھر اسلام میں عدل وانصاف کی یہ تاکید صرف اپنوں ہی کے حق میں نہیں فرمائی گئی ہے؛بلکہ غیروں کے حق میں بھی اور جان ومال اوردین وایمان کے دشمنوں کے حق میں بھی عدل وانصاف ہی کی تاکید فرمائی گئی ہے،قرآن شریف کا کھلاہوا ارشاد ہے: "وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۰اِعْدِلُوْا۰ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى"۔ (المائدہ:۸) اورکسی قوم کی عداوت تم کو اس گناہ پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے ساتھ انصاف نہ کرو تم ہر حال میں ہر ایک کے ساتھ انصاف کرو تقویٰ کی شان کے یہی زیادہ مناسب ہے۔ اس آیت سے صاف ظاہرہے کہ کسی شخص سے یا کسی قوم سے اگر بالفرض ہماری دشمنی اورلڑائی ہو تب بھی ہم اس کے ساتھ کوئی بے انصافی نہیں کرسکتے اوراگرکریں گے تو اللہ کے نزدیک سخت مجرم اورگناہگارہوں گے،رسول اللہﷺ سے مروی ہے،آپﷺ نے ارشاد فرمایا: "قیامت کے دن اللہ سے سب سے زیادہ قریب اوراللہ کو سب سے زیادہ پیاراامام عادل ہوگا(یعنی اللہ کے حکم کے مطابق انصاف کے ساتھ حکومت کرنے والاحکمراں)اوراللہ سے سب سے زیادہ دور اورسخت ترین عذاب میں گرفتار قیامت کے دن امام جابرہوگا(یعنی ظلم اوربے انصافی سے حکومت کرنے والا حکمراں)"۔ (ترمذی،باب ماجاء فی امام العادل،حدیث نمبر:۱۲۵۰، شاملہ، موقع الإسلام) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "تم جانتے ہو کہ قیامت کے دن اللہ کے سایۂ رحمت میں کون لوگ سب سے پہلے آئیں گے؟عرض کیاگیا کہ:اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ معلوم ہے(لہٰذا حضورﷺ ہی ہم کو بتلائیں کہ کون خوش نصیب بندے قیامت کے دن سب سے پہلے رحمت کے سایہ میں لیے جائیں گے) آپﷺ نے ارشاد فرمایا:یہ وہ بندے ہوں گے جن کا حال یہ ہوگا کہ جب ان کا حق مانگے تو وہ (بغیرلیت ولعل کے) اس کا حق اداکردیں اور دوسرے لوگوں کے لیے بالکل اسی طرح فیصلہ کریں جس طرح کہ خوداپنے لیے کریں (یعنی اپنے اورغیر کے معاملہ میں کوئی فرق نہ کریں)"۔ (مسند احمد،حدیث سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا،حدیث نمبر:۲۳۲۴۳، شاملہ، موقع الإسلام) افسوس!ہم مسلمانوں نے اسلام کی ان پاکیزہ تعلیمات کو بالکل بھلادیاہے؛ اگرآج مسلمانوں میں یہ صفات پیدا ہوجائیں کہ وہ بات کے سچے،عہد کے پکے امانت دار اور ہر ایک کے ساتھ عدل وانصاف کرنے والے ہوجائیں تو دنیا کی عزتیں بھی ان کے قدم چومیں اورجنت میں بھی ان کو بہت بڑے درجے ملیں۔ رحم کھانا اورقصوروارکومعاف کرنا کسی کو مصیبت کی حالت میں اوردکھ درد میں مبتلادیکھ کر اس پر رحم کھانااور اس کے ساتھ ہمدردی کرنا اور کسی خطاکارکی خطامعاف کرنا بھی ان اخلاق میں سے ہے جن کی اسلام میں بڑی اہمیت اوربڑی فضیلت ہے،ایک حدیث میں ہے،رسول اللہﷺ نے فرمایا: "جورحم نہیں کرتا،اس پر رحم نہیں کیا جائے گا"۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي رَحْمَةِ الْوَلَد،حدیث نمبر:۱۸۳۴، شاملہ، موقع الإسلام) ایک دوسری روایت میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جوکوئی کسی کا قصورمعاف نہیں کرتا،تواللہ تعالیٰ بھی اس کا قصور معاف نہیں کرے گا"۔ (کنزالعمال،جز:۳،حدیث نمبر:۷۰۲۱ ، شاملہ، موقع یعسوب) ایک اورحدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رحم کھانے والوں پررحمن رحمت کرتا ہے،تم زمین والوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرو، تم پرآسمان والا رحمت کرے گا"۔ (ترمذی،باب ماجاء فی رحمۃ الناس،حدیث نمبر:۱۸۴۷، شاملہ، موقع الإسلام) اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام، دوست اوردشمن سب کے ساتھ بلکہ زمین میں بسنے والی سب مخلوق کے ساتھ رحمدلی کی تعلیم دیتا ہے، ایک حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: "کسی شخص نے ایک پیاسے کتے کو جو پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہاتھا اس پر رحم کھاکر پانی پلادیا تھا تو اللہ تعالی نے اس کے اس فعل کے بدلہ میں اس کو جنت عطافرمادی تھی"۔ (ابو داؤد، بَاب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ الْقِيَامِ عَلَى الدَّوَابِّ وَالْبَهَائِم،حدیث نمبر:۲۱۸۷، شاملہ، موقع الإسلام) افسوس! اللہ کی مخلوق پر رحم کھانے اورسب کے ساتھ ہمدردی کرنے کی صفت ہم سے نکل گئی اور اسی واسطے ہم خداکی رحمتوں کے قابل نہیں رہے۔ نرم مزاجی لین دین میں اورہرطرح کے برتاؤ میں نرمی اورآسانی کرنا بھی اسلام کی خاص تعلیمات میں سے ہے، ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نرمی کرنے والوں اورآسانی کرنے والوں پر دوزخ کی آگ حرام ہے"۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْض،حدیث نمبر:۲۴۱۲، شاملہ، موقع الإسلام) ایک دوسری حدیث میں ہے: "اللہ تعالی نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر اتنا دیتا ہے جتنا سختی پر نہیں دیتا"۔ (مسلم،باب فضل الرفق،حدیث نمبر:۴۶۹۷، شاملہ، موقع الإسلام) تحمل اوربردباری ناگوار باتوں کو برداشت کرنا اورایسے موقع پر غصہ پی جانا بھی ان اخلاق میں سے ہے جن کو اسلام سب انسانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور اللہ کے نزدیک ان اہل ایمان کا بڑا درجہ ہے جو اپنے اندر یہ صفت پیداکرلیں۔ قرآن شریف میں جہاں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جن کے لیے جنت سجائی گئی ہے،وہاں ایسے لوگوں کا خاص طورسے ذکر کیاگیا ہے،ارشاد ہے: "وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ"۔ (آل عمران:۱۳۴) جو غصہ کوپی جانے والے ہیں اورلوگوں کے قصورمعاف کرنے والے ہیں۔ ایسے لوگوں کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ہے کہ: "جوشخص اپنے غصہ کوروکےگا،اللہ تعالی اس سے اپنا عذاب روک لےگا"۔ (شعب الایمان،فصل فی ترک الغضب، حدیث نمبر:۸۰۸۰، شاملہ، موقع جامع الحدیث) بڑے خوش نصیب ہیں اللہ کے وہ بندے جو غصہ آنے کے وقت ان آیتوں اورحدیثوں کویادکرکے اپنے غصہ کو روک لیں اور اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ ان سے اپنے عذاب کوروک لے۔ خوش کلامی اورشیریں زبانی اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں سے ایک خاص تعلیم یہ بھی ہے ،کہ بات چیت ہمیشہ خوش اخلاقی سے اورمیٹھی زبان میں کی جائے اور سخت کلامی اوربدزبانی سے پرہیز کیا جائے،قرآن مجید میں ارشاد ہے: "وَقُوْلُوْاللنَّاسِ حُسْنًا"۔ (البقرۃ:۸۳) " اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔" اسلام نے خوش کلامی کو نیکی قراردیاہے اورسخت کلامی کو گناہ بتلایاہے،حدیث شریف میں ہے،رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ: "نرمی اورخوش اخلاقی سے بات چیت کرنا نیکی ہے اور ایک قسم کا صدقہ ہے"۔ (بخاری، بَاب طِيبِ الْكَلَامِ،حدیث نمبر:۵۵۶۴، شاملہ، موقع الإسلام) ایک اورحدیث میں ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بدزبانی ظلم ہے اورظلم کاٹھکانہ جہنم ہے"۔ (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَيَاءِ،حدیث نمبر:۱۹۳۲، شاملہ، موقع الإسلام) ایک دوسری حدیث میں ہے: "بدزبانی نفاق ہے(یعنی منافقوں کی خصلت ہے)"۔ (مسلم،باب خصال المنافق ،حدیث نمبر:۸۸، شاملہ، موقع الإسلام) اللہ تعالی بدزبانی اورسخت کلامی کی اس ظالمانہ اورمنافقانہ خصلت سے ہماری حفاظت فرمائے اورخوش کلامی اورنرم گفتاری ہم کو نصیب فرمائے جوایمان کی شان ہے اوراللہ کے نیک بندوں کاطریقہ ہے۔ عاجزی اورانکساری اسلام جن عادتوں کو اپنے ماننے والوں میں عام کرنا چاہتا ہے،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خداکے دوسرے بندوں کے مقابلے میں آدمی اپنے کو نیچارکھے اورخود کو عاجز اورحقیر بندہ سمجھے،یعنی غرور اورتکبر سے اپنے دل کو پاک رکھے اور اس کے بجائے خاکساری کو اپنا شیوہ بنائے۔ اللہ کے یہاں عزت اوربلندی انہیں خوش نصیبوں کے لیے ہے،جو اس دنیا میں نیچے ہوکررہیں،قرآن مجید میں ارشاد ہے: "وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا"۔ (الفرقان:۶۳) رحمان کے خاص بندے تو وہی ہیں،جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: "تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا"۔ (القصص:۸۳) آخرت کے اس گھر(جنت)کاوارث ہم انہیں کوکریں گے،جونہیں چاہتے دنیا میں بڑائی حاصل کرنا اور فسادکرنا۔ ایک حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "جس نے خاکساری اختیار کی، اللہ تعالی اس کے مرتبے اتنے بلندکرے گا کہ اس کو اعلی علیین میں پہونچائےگا(جوجنت کا سب سے اونچادرجہ ہے)"۔ (مسند احمد،مسند ابی سعید الخدری،حدیث نمبر:۱۱۲۹۹، شاملہ، موقع الإسلام) اور اس کے برخلاف غروراورتکبر اللہ تعالی کو اس قدرناپسندہے کہ ایک حدیث میں آیاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابربھی تکبر ہوگا،تواللہ تعالیٰ اس کو منھ کے بل جہنم میں ڈلوائےگا"۔ (کنزالعمال،جز:۳حدیث نمبر:۷۷۷۳، شاملہ، موقع یعسوب) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: "جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابربھی تکبر اورغرورہوگا،وہ جنت میں نہ جاسکے گا"۔ (مسلم،باب تحریم الکبر وبیانہ،حدیث نمبر:۱۳۳) ایک اورحدیث میں ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تکبر سے بچو،تکبرہی وہ گناہ ہے،جس نے سب سے پہلےشیطان کوسجدہ کرنے سے روکا"۔ (کنزالعمال،جز:۳،حدیث نمبر۷۷۳۴، شاملہ، موقع یعسوب) اللہ تعالی ہم سب کو اس شیطانی خصلت سے بچائے اوروہ عاجزی اورخاکساری نصیب فرمائے جو اس کو پسند ہے اورجوبندگی کی شان ہے، لیکن یہاں ہم کو یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ہماری عاجزی اورخاکساری اپنے نفس اوراپنی ذات کے معاملہ میں ہونی چاہئے ،مگرحق کے معاملہ میں اور دین کے بارے میں ہمیں قوت اورپختگی کا ثبوت دینا چاہئے،اس موقع کے لیے اللہ کا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہی ہے، الغرض مومن کی شان یہی ہے کہ وہ اپنے نفس اوراپنی ذات کو حقیر اورنیچا سمجھےاورحق پر مضبوطی سے قائم رہے اورکسی کے ڈر،خوف سے اس میں کمزوری نہ دکھائے۔ صبروشجاعت اس دنیا میں آدمیوں پر مصیبتوں اورمشقتوں کے وقت بھی آتے ہیں،کبھی بیماری آتی ہے،کبھی محتاجی اورناداری کی صورت ہوجاتی ہے کبھی ظالم دشمن ستاتے ہیں،کبھی دوسرے طورپرحالات ناموافق ہوجاتے ہیں،پس ایسے موقعوں کے لیے اسلام کی خاص تعلیم یہ ہے کہ اللہ کے بندے صبر اورہمت سے کام لیں اور ہزار تکلیفوں اورمصیبتوں کے باوجود مضبوطی اوربہادری کے ساتھ اپنے اصول پر قائم رہیں، ایسے لوگوں کے لیے قرآن شریف کی خوش خبری ہے کہ وہ اللہ کے پیارے ہیں۔ "وَاللہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ"۔ (آل عمران:۱۴۶) " اوراللہ صبروالوں سے محبت رکھتا ہے۔" دوسری آیت میں ہے: "اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ"۔ (البقرۃ:۱۵۳) " اللہ یقینا صبروالوں کے ساتھ ہے۔" ایک اور آیت میں ان ایمان والوں کی بڑی تعریف کی گئی ہے،جوتکلیف اورمشقت کی حالت میں اورحق کے لیے جنگ میں ثابت قدم رہیں اورقربانی سے نہ بھاگیں۔ "وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ"۔ (البقرۃ:۱۷۷) اورجولوگ سختی اورتکلیف اورجنگ کے وقت ثابت قدم رہنے والے ہیں وہی ہیں جو سچے ہیں اور متقی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صبر کی توفیق سے بہتر کوئی نعمت نہیں"۔ (بخاری،بَاب الِاسْتِعْفَافِ عَنْ الْمَسْأَلَة،حدیث نمبر:۱۳۷۶، شاملہ، موقع الإسلام) ایک دوسری حدیث میں ہے: "صبرآدھا ایمان ہے"۔ (شعب الایمان،باب الصبر نصف الایمان،حدیث نمبر:۴۷، شاملہ، موقع جامع الحدیث) اور اس کے برخلاف بے صبری اوربزدلی اسلام کی نگاہ میں بدترین عیب ہیں جس سے حضور صلیﷺ اپنی دعاؤں میں بکثرت پناہ مانگتے تھے، اللہ تعالی ہم سب کو بھی صبر وہمت عطافرمائے اوربے صبری اوربے ہمتی سے اپنی پناہ میں رکھے۔ اخلاص اورتصحیح نیت اخلاص،تمام اسلامی اخلاق کی ،بلکہ کہنا چاہئے کہ پورے اسلام کی روح اورجان ہے،اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو کام بھی کریں،وہ محض اللہ کے واسطے اور اس کی رضا کی نیت سے کریں اور اس کے سواہماری کوئی اورغرض نہ ہو۔ اسلام کی جڑتوحید ہے اور توحید کی تکمیل اخلاص ہی سے ہوتی ہے یعنی کامل توحید یہی ہے کہ ہمارا ہر کام اللہ کے واسطے ہو اور صرف اللہ کی رضا اور اس کا ثواب ہی ہمارا مطمح نظر ہو،حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: "جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے منع کیا،اس نے اپنا ایمان کامل کرلیا"۔ (ابوداؤد، بَاب الدَّلِيلِ عَلَى زِيَادَةِ الْإِيمَانِ وَنُقْصَانِه،حدیث نمبر:۴۰۶۱، شاملہ، موقع الإسلام) مطلب یہ ہے کہ جس نے اپنے تعلقات اور معاملات کو اپنی ذاتی خواہش اوردوسری اغراض کے بجائے صرف رضائےالہٰی کے ماتحت کردیا،وہی اللہ کے نزدیک کامل مؤمن ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: "اللہ تعالی تمہاری صورتوں اورتمہارے مالوں کو نہیں دیکھتے بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں"۔ (مسلم، بَاب تَحْرِيمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ،حدیث نمبر:۴۶۵۱، شاملہ، موقع الإسلام) یعنی اللہ تعالی کی طرف سے جزا اور ثواب کا معاملہ خلوص اوردل کی نیت کے مطابق ہوگا، ایک اورحدیث میں ہے،حضور نے فرمایا: "اللہ تعالی اعمال میں صرف وہی عمل قبول فرماتے ہیں جو خالص ان ہی کے لیے ہو اور اس میں صرف اللہ تعالی ہی کی خوشنودی مقصود ہو"۔ (نسائی،باب من غزا یلتمس الاجر والذکر،حدیث نمبر:۳۰۸۹، شاملہ، موقع الإسلام) آخر میں ایک حدیث اورذکر کی جاتی ہے،جس کو سن کر ہم سب کو لرزجانا چاہئے،بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ جب اس حدیث کو سناتے تھے تو کبھی کبھی بے ہوش ہوکر گرپڑتے تھے،وہ حدیث یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ "قیامت میں سب سے پہلے قرآن کے بعض عالم اوربعض شہید اوربعض مالدار پیش کئے جائیں گےاوران لوگوں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی زندگی میں ہمارے لیے کیا کیا؟،عالم قرآن کہے گا کہ میں عمر بھر تیری کتاب کوپڑہتارہا اس کو خودسیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور یہ سب تیرے واسطے کیا ارشاد ہوگا:توجھوٹا ہے تونے تو یہ سب کچھ اپنی شہرت کے لیے کیا تھا جو دنیا میں تجھے حاصل ہوچکی ،پھر مالدار سے پوچھا جائے گا کہ ہم نے تجھ کو مال دیا تھا تونے اس میں ہمارے لیے کیاکیا؟ وہ کہے گا کہ نیکی کے سب کاموں میں اوربھلائی کی سب راہوں میں تیری رضا کے لیےصرف کیا،ارشادہوگا:توجھوٹاہے،تونے دنیا میں یہ فیاضی صرف اس لیے کہ تھی کہ تیری سخاوت اورفیاضی کے چرچے ہوں اور لوگ تعریفیں کریں، سودنیا میں یہ سب کچھ تجھے حاصل ہوچکا،پھر اسی طرح شہید سے پوچھا جائے گا وہ کہے گا کہ تیری دی ہوئی سب سے عزیز چیز جان تھی،میں اس کو بھی تیرے لیے قربان کرآیا،ارشاد ہوگا:توجھوٹاہے،تونے توجنگ میں صرف اس لیے حصہ لیا تھاکہ تیری بہادری کی شہرت ہو اور تیرانام ہو،سووہ شہرت اورناموری تجھے دنیا میں حاصل ہوگئی،پھر ان تینوں کے لیے حکم ہوگا کہ ان کو اوندھے منھ گھسیٹ کے جہنم میں ڈال دیا جائے ،چنانچہ یہ دوزخ میں جھونک دئے جائیں گے"۔ (مسلم، بَاب مَنْ قَاتَلَ لِلرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ اسْتَحَقَّ النَّار،حدیث نمبر:۳۵۲۷، شاملہ، موقع الإسلام) بھائیوں!ہمیں چاہئے کہ اپنے اعمال کو اس حدیث کی روشنی میں دیکھیں اوراپنے دلوں اوراپنی نیتوں میں خلوص پیداکرنے کی کوشش کریں،اے اللہ!ہم سب کو اخلاص نصیب فرما اورہمارے ارادوں اورہماری نیتوں کومحض اپنے فضل وکرم سے درست فرمادے اورہم کو اپنے مخلص بندوں میں سے کردے،آمین۔