انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
کن اوقات کی دعائیں مؤثر ہوتی ہیں؟ رحمتِ خداوندی کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے، اور ہر شخص جب چاہے اس کریم آقا کی بارگاہ میں بغیر کسی روک ٹوک کے اِلتجا کرسکتا ہے، اس لئے دُعاء تو ہر وقت ہی موٴثر ہوتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ کوئی مانگنے والا ہو اور ڈھنگ سے مانگے۔ دُعاء کی قبولیت میں سب سے زیادہ موٴثر چیز آدمی کی عاجزی اور لجاجت کی کیفیت ہے، کم از کم ایسی لجاجت سے تو مانگو جیسے ایک بھیک منگا سوال کیا کرتا ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ:"اللہ تعالیٰ غافل دِل کی دُعاء قبول نہیں فرماتے"۔ اور قرآن مجید میں ہے:"کون ہے جو قبول کرتا ہے بیقرار کی دُعاءء جبکہ اس کو پکارے’’۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دُعاء کی قبولیت کے لئے اصل چیز پکارنے والے کی بے قراری کی کیفیت ہے، قبولیتِ دُعاء کے لئے ایک اہم شرط لقمۂ حلال ہے حدیث میں ارشاد ہے کہ:‘‘ایک شخص گرد وغبار سے اَٹا ہوا، پراگندہ بال، دُور دراز سے سفر کرکے (حج کے لئے) آتا ہے اور وہ بڑی لجاجت سے "یا رَبّ! یا رَبّ!" پکارتا ہے، لیکن اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا، اس کی دُعاء کیسے قبول ہو؟" (صحیح مسلم) قبولیتِ دُعاء کے لئے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی جلدبازی سے کام نہ لے، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی کسی حاجت کے لئے دُعاءئیں مانگتا ہے، مگر جب بظاہر وہ مراد بر نہیں آتی تو مایوس ہوکر نہ صرف دُعاء کو چھوڑ دیتا ہے بلکہ ․․․نعوذ باللہ ․․․ خدا تعالیٰ سے بدظن ہوجاتا ہے، حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ:"بندے کی دُعاء قبول ہوتی ہے جب تک کہ جلدبازی سے کام نہ لے،عرض کیا گیا:جلد بازی سے کیا مطلب؟ فرمایا: یوں کہنے لگے کہ میں نے بہت دُعاءئیں کیں مگر قبول ہی نہیں ہوتیں"۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آدمی کی ہر دُعاء اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں، مگر قبولیت کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں، کبھی بعینہ وہی چیز عطا کردی جاتی ہے جو اس نے مانگی تھی، کبھی اس سے بہتر چیز عطا کردیتے ہیں، کبھی اس کی برکت سے کسی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں، اور کبھی بندے کے لئے اس کی دُعاء کو آخرت کا ذخیرہ بنادیتے ہیں، اس لئے اگر کسی وقت آدمی کی منہ مانگی مراد پوری نہ ہو تو دِل توڑ کر نہ بیٹھ جائے، بلکہ یہ یقین رکھے کہ اس کی دُعاء تو ضرور قبول ہوئی ہے، مگر جو چیز وہ مانگ رہا ہے، وہ شاید علمِ الٰہی میں اس کے لئے موزوں نہیں، یا اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ: "اللہ تعالیٰ موٴمن کو قیامت کے دن بلائیں گے، اور اسے اپنی بارگاہ میں باریابی کا اِذن دیں گے، پھر ارشاد ہوگا کہ: میں نے تجھے مانگنے کا حکم دیا تھا اور قبول کرنے کا وعدہ کیا تھا، کیا تم مجھ سے دُعاء کیا کرتے تھے؟ بندہ عرض کرےگا: یا اللہ! میں دُعاء تو کیا کرتا تھا۔ ارشاد ہوگا کہ: تم نے جتنی دُعاءئیں کی تھیں میں نے سب قبول کیں۔ دیکھو! تم نے فلاں وقت فلاں مصیبت میں دُعاء کی تھی، اور میں نے وہ مصیبت تم سے ٹال دی تھی، بندہ اقرار کرے گا کہ واقعی یہی ہوا تھا۔ ارشاد ہوگا: وہ تو میں نے تم کو دُنیا ہی میں دے دی تھی، اور دیکھو! تم نے فلاں وقت، فلاں مصیبت میں مجھے پکارا تھا، لیکن بظاہر وہ مصیبت نہیں ٹلی تھی، بندہ عرض کرے گا کہ: جی ہاں! اے رَبّ! یہی ہوا تھا، ارشاد ہوگا: وہ میں نے تیرے لئے جنت میں ذخیرہ بنا رکھی ہے"۔ آنحضرت ﷺ نے اس واقعے کو نقل کرکے فرمایا ہے: "موٴمن بندہ اللہ تعالیٰ سے جتنی دُعاءئیں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ایک ایک کی وضاحت فرمائیں گے کہ یا تو اس کا بدلہ دُنیا ہی میں جلدی عطا کردیا گیا، یا اسے آخرت میں ذخیرہ بنادیا گیا، دُعاوٴں کے بدلے میں جو کچھ موٴمن کو آخرت میں دیا جائے گا، اسے دیکھ کر وہ تمنا کرےگا کہ کاش! دُنیا میں اس کی کوئی بھی دُعاء قبول نہ ہوئی ہوتی"۔ (مستدرک) ایک اور حدیث میں ہے کہ: "اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے، جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹادے"۔ (ترمذی، ابنِ ماجہ) الغرض! دُعاء کرتے وقت قبولیت کا کامل یقین اور وثوق ہونا چاہئے، اور اگر کسی وقت بظاہر دُعاء قبول نہ ہو، تب بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ حق تعالیٰ شانہ میری اس دُعاء کے بدلے مجھے بہتر چیز عطا فرمائیں گے، موٴمن کی شان تو یہ ہونی چاہئے کہ ؎ یابم او را یا نہ یابم جستجوئے می کنم حاصل آید یا نیاید آروزئے می کنم حضراتِ عارفین نے اس بات کو خوب سمجھا ہے، وہ قبولیت کی بہ نسبت عدمِ قبولیت کے مقام کو بلندتر سمجھتے ہیں، اور وہ تفویض وتسلیم کا مقام ہے۔ حضرت پیرانِ پیر شاہِ جیلاں غوثِ اعظم قطب جیلانی قدس اللہ روحہ فرماتے ہیں کہ: جب آدمی پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو وہ اسے اپنی ذات پر سہارنے کی کوشش کرتا ہے، اور کسی دُوسرے کو اس کی اطلاع دینا پسند نہیں کرتا، اور جب وہ قابو سے باہر ہوجاتی ہے، تو عزیز واقارب اور دوست احباب سے مدد کا خواستگار ہوتا ہے، اور اسبابِ ظاہری کی طرف دوڑتا ہے، جب اس سے بھی کام نہیں نکلتا تو بارگاہِ خداوندی میں دُعاء واِلتجا کی طرف متوجہ ہوتا ہے، خود بھی گڑگڑاکر دُعاءئیں کرتا ہے اور دُوسروں سے بھی کراتا ہے، اور جب اس پر بھی وہ مصیبت نہیں ٹلتی تو بارگاہِ جلال میں سرِتسلیم خم کردیتا ہے، اپنی بندگی و بے چارگی اور عبدیت پر نظر کرتے ہوئے رضائے مولیٰ پر راضی ہوجاتا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ یہ تفویض و تسلیم کا مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو عطا کرتا ہے۔ (تاریخِ دعوت و عزیمت، از مولانا ابوالحسن علی ندوی) بعض اکابر نے قبولیتِ دُعاء کے سلسلے میں عجیب بات لکھی ہے، عارفِ رُومی قدس اللہ روحہ فرماتے ہیں کہ: تمہاری دُعاء کیوں قبول نہیں ہوتی؟ اس لئے کہ تم پاک زبان سے دُعاء نہیں کرتے۔ پھر خود ہی سوال کرتے ہیں: جانتے ہو پاک زبان سے دُعاء کرنے کا مطلب کیا ہے؟ پاک زبان سے دُعاء کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم دُوسروں کی زبان سے دُعاء کراوٴ، وہ اگرچہ گناہگار ہوں، مگر تمہارے حق میں ان کی زبان پاک ہے۔ یہ ناکارہ عرض کرتا ہے کہ: پاک زبان سے دُعاء کرنے کی ایک اور صورت بھی ہے، وہ یہ کہ کسی دُوسرے موٴمن کے لئے دُعاء کی جائے، آپ کو جو چیز اپنے لئے مطلوب ہے، اس کی دُعاء کسی دُوسرے موٴمن کے لئے کیجئے تو انشاء اللہ آپ کو پہلے ملے گی۔ حدیث میں ارشاد ہے کہ: جب موٴمن دُوسرے موٴمن کے لئے پسِ پشت دُعاء کرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ، وَلَکَ یعنی اے اللہ! اس کی دُعاء کو قبول فرما، اور پھر دُعاء کرنے والے کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ تجھے بھی یہ چیز عطا فرمائے۔“ گویا فرشتوں کی پاک زبان سے دُعاء کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی موٴمن کے لئے دُعاء کریں، چونکہ اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں اور پھر دُعاء کرنے والے کے حق میں بھی دُعاء کے قبول ہونے کی درخواست کرتے ہیں، شاید اسی بنا پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک موٴمن کی دُوسرے موٴمن کے حق میں غائبانہ دُعاء قبول ہوتی ہے۔ بہرحال دُعاء تو ہر شخص کی قبول ہوتی ہے، اور ہر وقت قبول ہوتی ہے (خواہ قبولیت کی نوعیت کچھ ہی ہو)، تاہم بعض اوقات ایسے ہیں جن میں دُعاء کی قبولیت کی زیادہ اُمید کی جاسکتی ہے، ان میں سے چند اوقات ذکر کرتا ہوں: ۱:… سجدے کی حالت میں، حدیث میں ہے کہ:"آدمی کو حق تعالیٰ شانہ کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے خوب کثرت اور دِل جمعی سے دُعاء کیا کرو"۔ (صحیح مسلم) مگر حنفیہ کے نزدیک فرض نمازوں کے سجدے میں وہی تسبیحات پڑھنی چاہئیں جو حدیث میں آتی ہیں، یعنی "سبحان ربی الاعلیٰ"کریم آقا کی تعریف و ثنا بھی دُعاء اور درخواست ہی کی مد میں شمار ہوتی ہے، اور نفل نمازوں کے سجدے میں جتنی دیر چاہے دُعائیں کرتا رہے۔ ۲:… فرض نماز کے بعد، آنحضرت ﷺ سے سوال کیا گیا کہ:کس وقت کی دُعاء زیادہ سنی جاتی ہے؟ فرمایا:رات کے آخری حصے کی اور فرض نمازوں کے بعد کی۔(ترمذی) ۳:… سحر کے وقت، حدیث میں ہے کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی ہے تو زمین والوں کی طرف حق تعالیٰ کی نظرِ عنایت متوجہ ہوتی ہے اور اعلان ہوتا ہے کہ: "کیا ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی دُعاء کرنے والا کہ اس کی دُعاء قبول کریں؟ ہے کوئی بخشش کا طلب گار کہ میں اس کی بخشش کروں؟" یہ سلسلہ صبحِ صادق تک جاری رہتا ہے۔ (صحیح مسلم) ۴:… موٴذّن کی اذان کے وقت۔ ۵:… بارانِ رحمت کے نزول کے وقت۔ ۶ :… اذان اور اقامت کے درمیان۔ ۷:… سفر کی حالت میں۔ ۸:… بیماری کی حالت میں۔ ۹:… زوال کے وقت۔ ۱۰:… دن رات میں ایک غیرمعین گھڑی۔ یہ اوقات احادیث میں مروی ہیں۔ حدیث میں ارشاد ہے کہ: اپنی ذات، اپنی اولاد، اپنے متعلقین اور اپنے مال کے حق میں بددُعاء نہ کیا کرو، دن رات میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں جو دُعاء کی جائے، قبول ہوجاتی ہے، ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددُعاء بھی اسی گھڑی میں ہو اور وہ قبول ہوجائے (تو پھر پچھتاتے پھروگے)۔ (صحیح مسلم وغیرہ) (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۲۶۵ ، کتب خانہ نعیمیہ)