انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مصعب کی مقابلہ کی تیاریاں مصعب کو عبد الملک کے انتظامات کی خبر ہوئی تو انہوں نے بھی اپنی فوجیں بڑھائیں، مقام دیر حانات پر دونوں کا مقابلہ ہوا، مصعب کے آدمی اموی فوجوں کے ٹڈی دل دیکھ کر گھبرا گئے اور اس کے مقابلہ میں انہیں اپنی ناکامی کا یقین ہوگیا؛چنانچہ مصعب نے اپنے بھائی عروہ بن زبیرؓ سے پوچھا کہ حسینؓ نے دشت کربلا میں ایسے نازک وقت میں کیا کیا تھا؟ انہوں نے پوری تفصیل بیان کرکے کہا کہ ابن زیاد نے اس سے اطاعت قبول کرانی چاہی، لیکن حسینؓ نے انکار کردیا اور آزادی کی موت کو غلامی کی زندگی پر ترجیح دی حریت اورآزادی کا یہ درس سن کر مصعب کی رگ وپے میں ایک نئی روح دوڑ گئی اوروہ یہ رجز پڑہنے لگے۔ فان الا بالطف من ال بنی ھاشم تاسر ننو اللکرام الناسیا آل ہاشم میں سے ان لوگوں نے مقام طف میں تقلید کی اورشریفوں کے لئے تقلید کی راہ پیدا کردی عبدالملک نے اس مرتبہ ابن زبیرؓ کے مقابلہ کے لئے بڑے بڑے انتظامات کئے تھے ان کے تمام حامیوں کو طمع دلا کر انہیں توڑنے کی کوشش کی تھی،عراق کے تمام مروانی طمع میں آکر اس سے مل بھی گئے تھے، (طبری:۸/۸۰۴) زفر بن حارث جو قرقیسا میں ابن زبیرؓ کا رکن تھا عبدالملک کا مطیع ہوگیا تھا۔ (مروج الذہب:۲/۵۲۰) اس سلسلہ میں عبدالملک نے ابراہیم بن اشترکو بھی جو ابن زبیرؓ کے ساتھ ہوگئے تھے خط لکھا تھا کہ تم نے محض دشمنی کی بنا پر میری اطاعت نہیں قبول کی، اگر مع اپنے زیر اثر اشخاص کے میری اطاعت قبول کرلو تو وہ علاقہ جو فرات سے سیراب ہوتا ہے تم کو عطا کردیا جائے گا، ابراہیم نے یہ خط لاکر مصعب کے سامنے پیش کردیا، اگر مجھ کو مشرق سے لیکر مغرب تک کا علاقہ بھی دیا جائے تو بھی میں صفیہ کی اولاد کے مقابلہ میں بنی امیہ کی مدد نہ کروں گا اوریہ خط تنہا میرے ہی پاس نہیں آیا ہے ؛بلکہ آپ کے تمام بڑے بڑے ممتاز افسروں کو اس قسم کی طمع دلائی گئی ہے جس سے بہتوں کی نیتوں میں فتور اور ارادوں میں تذبذب بھی پیدا ہوگیا ہے اگر اجازت ہو تو ان سب کی گردنیں اڑادوں، مصعب نے کہا وقت کی نزاکت کے پیش نظر یہ کاروائی مناسب نہیں ہے اس سے مقتولین کے قبائل میں بددلی پیدا ہوگی جو ہمارے لئے مضر ہے، ابراہیم نے کہا اگر ایسے لوگوں کو قتل نہ کیا جائے تو کم از کم مشتبہ لوگوں کو گرفتار ہی کرلیا جائے، کامیابی کے بعد پھر انہیں چھوڑ دیا جائے گا اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ اگر خدانخواستہ کوئی ناخوشگوار صورت پیش آئی تو یہ کاروائی حفظ ماتقدم کا کام دے گی، مصعب نے کہا اگر آج میں لوگوں کو قید کرتا ہوں تو کل یہ لوگ اس کو امیر المومنین کے سامنے میرے خلاف ثبوت میں پیش کریں گے ابراہیم نے کہا، اگر آپ اتنا بھی نہیں کرتے تو پھر موت کے سوا چارہ نہیں، بسم اللہ چلئے اور شریفانہ جان دیجیے میں ہمہ تن فدا کاری کے لئے تیار ہوں اس گفتگو کے بعد دونوں نے فوجیں بڑھا کر دیر جا ثلیق میں اتاردیں، صبح اٹھ کر دیکھا تو ابراہیم نے مصعب سے کہا آپ نے دیکھا، میری رائے کس قدر صحیح تھی لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ (اخبار الطوال:۳۱۷) گو مصعب پہلے ہی سے مایوس ہوچکے تھے، لیکن میدان جنگ میں انہی کا پلہ بھاری رہا اور جس قدر جنگ طول کھینچتی جاتی تھی، اسی قدر اموی فوج کا پہلو کمزور پڑتا جاتا تھا اورقریب تھا کہ وہ سپرڈال کر میدان چھوڑدے ،عین اسی موقع پر ابن زبیرؓ کی فوج کے ایک ممتاز آدمی عتاب بن درقاتمیمی کو ابراہیم کی اس شجاعت پر حسد ہوا اوراس نے کوشش کی کہ اس کامیابی کا سہرا ابراہیم کے سرنہ بندھنے پائے؛چنانچہ ابراہیم سے کہا ،رات ہوچکی ہے سپاہی تھک چکے ہیں اس لئے جنگ روک دینی چاہئے، ابراہیم نے کہا، دشمن مقابل میں ہے اس لئے جنگ کسی طرح روکی جاسکتی ہے،عتاب نے کہا کم از کم میمنہ ہی کو آرام لینے دو، ابراہیم نے اس سے بھی انکار کیا ،ا س انکار پر عتاب کی آتش حسد اور زیادہ مشتعل ہوگئی اور وہ میمنہ کو جس کی کمان وہ خود کررہا تھا میدان جنگ سے ہٹالے گیا، اس کے ہٹنے سے مصعب کی فوج کا ایک بازو کمزور پڑگیا ،محمد بن مروان کے میسرہ نے اندازہ کرکے نہایت زور و شور کا حملہ کیا اس کے حملہ کے ساتھ ہی اموی سوار ہر طرف سے نیزے لیکر ابراہیم پر ٹوٹ پڑے اوروہ زخمی ہوکر گھوڑے کی پشت سے زمین پر گر گئے ان کے گرتے ہی امویوں نے بڑھ کر سر تن سے جدا کرلیا،ابراہیم کے قتل سے ابن زبیرؓ کا بڑا زبردست بازو ٹوٹ گیا۔ (مروج الذہب مسعودی:۲/۵۲۲)