انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت حجر ؓبن عدی نام ونسب حجرنام، خیر لقب ،کندہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے،نسب نامہ یہ ہے، حجر بن عدی بن معاویہ بن حارث بن عدی بن ربیعہ بن معاویہ الاکبر بن حارث بن معاویہ بن ثور بن مرتع بن معاویہ بن کندہ کندی اسلام ان کے زمانۂ اسلام کی تعیین میں ارباب سیر خاموش ہیں، لیکن اغلب یہ ہے کہ ۹ھ میں اسلام کے شرف سے مشرف ہوئے ہوں گے،کیونکہ اسی سنہ میں کندہ کا وفد مدینہ آیا تھا (زاد المعاد:۲/۳۱) اس میں حجر بھی تھے۔ (اسد الغابہ:۱/۳۸۵) عہد فاروقی حجر بہت آخر میں اسلام لائے،اس لیے عہد نبوی میں شرفِ جہاد سے محروم رہے سب سے اول فاروقی عہد میں میدان جہاد میں قدم رکھا ،دور ایران کی فتوحات میں مجاہدانہ شریک ہوئے ،قادسیہ کے مشہور معرکہ میں موجود تھے، قادسیہ کے بعد مدائن کی فتح میں تھے مدائن کی تسخیر کے بعد جب یزد گردنے جلولا میں فوجیں جمع کیں تو حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اس کے مقابلہ کے لئے ہاشم بن عتبہ کی سرکردگی میں ایک فوج روانہ کی حجر اس فوج کے یمنہ کے افسر تھے ،ان مجاہدوں نے یزد گرد کا نہایت کامیاب مقابلہ کیا اوراسے جلو لاء سے بھی بھاگنا پڑا۔ عہد مرتضوی جنگِ جمل وصفین میں حضرت علیؓ کے پرجوش حامیوں میں تھے، شروع سے آخر تک ان کے ساتھ رہے،جنگ جمل سے پہلے جب حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ اور عمار بن یاسرؓ کو کوفیوں کی مدد حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا تو حجر ہی کی تحریک پر ۹۶۵۰ اہل کوفہ حضرت علیؓ کی حمایت پر آمادہ ہوئے تھے، اس کے بعد جنگِ جمل میں حضرت علیؓ نے حجر کو کندہ ،حضرموت،قضاعہ اورمہرہ کے قبائل کا افسر بنایا۔ (اخبار الطوال:۱۵۴/۱۵۵) جنگ جمل کے بعد صفین کا معرکہ پیش آیا، اس میں بھی حجر نے بڑی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا، امیر معاویہ کے سخت دشمن تھے اوران پر علانیہ سب وشتم کرتے تھے،میدان جنگ میں ایک شامی جو ان حجر الشر کے مقابلہ میں آئے اور زخمی ہوکر گھوڑے کی پیٹھ سے گرے۔ (ایضاً) جنگ صفین کے بعد جب نہروان میں خارجیوں پر فوج کشی ہوئی تو میمنہ کی قیادت پر حجر مقرر ہوئے، غرض شروع سے آخر تک برابر حضرت علیؓ کے دست وبازو رہے،حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد بھی حجر کی فدویت اورجان نثاری میں فرق نہ آیا اور وہ اسی طرح جناب امیر کے خلف الصدق حضرت امام حسنؓ کے حامی اورخیر خواہ رہے، چونکہ حجر معاویہ کو برسرحق نہیں سمجھتے تھے، اس لیے حضرت حسن کی دست برداری کے بعد وفود خیر خواہی میں ان کی زبان سے ایسے نازیبا کلمات نکل گئے،جس سے حضرت حسن کو تکلیف پہنچی، انہوں نے کہا یا ابن رسول اللہ !کاش میں یہ دن دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہتا، آپ نے ہم کو عدل سے ہٹا کر جور کے راستہ پر ڈال دیا اورہم راہ حق کو چھوڑ کے باطل کے راستہ پر آگئے جس سے بھاگتے تھے، حضرت حسنؓ نے انہیں سمجھا بجھا کر خاموش کیا۔ (ابن اثیر) گرفتاری پھر حضرت حسنؓ کی دست برداری کے بعد خاموش ہوگئے تھے، مگر امیر معاویہ نے جب زیاد کو عراق کا والی بنایا تو اس کی تند خوئی اوربد اخلاقی کی وجہ سے اس میں اور حجر میں مخالفت شروع ہوگئی ،ایک دن زیاد جامعِ کوفہ میں تقریر کررہا تھا اور نماز کا وقت آخر ہورہا تھا،حجر اوران کے ساتھیوں نے زیاد کو متنبہ کرنے کے لیے اس پر کنکریاں پھینکیں،زیاد نے بڑی حاشیہ آرائی کے ساتھ بڑھا چڑھا کر ان کی شکایت لکھ بھیجی کہ یہ لوگ عنقریب ایسا رخنہ ڈالیں گے کہ اس میں پیوند نہ لگ سکے گا اوربہت سے لوگوں نے ان کے خلاف شہادت دی، اس لیے امیر معاویہ نے ان کو بلا بھیجا؛چنانچہ حجر اوردوسرے گیارہ آدمی پابجولان شام روانہ کئے گئے،امیر معاویہ نے ان میں سے چھ آدمیوں کو رہا کردیا اورچھ کو جنہیں ایک حجر تھے قتل کا حکم دیا۔ (استیعاب :۱/۱۳۷،واسد الغابہ:۱/۳۵۶) نماز کی مہلت جب جلاد مقتل کی طرف لے چلے تو حجر نے دورکعت نماز پڑہنے کی مہلت مانگی،مہلت دی گئی، نماز پڑھنے کے بعد کہا کہ اگر لمبی لمبی رکعتیں پڑھنے میں اس کا خطرہ نہ ہوتا کہ تم لوگ گمان کروگے کہ میں نے خوف سے نماز کو طول دیا ہےتو لمبی رکعتیں پڑہتا، اگر میری گذشتہ نمازیں اس قابل نہیں ہیں کہ مجھے فائدہ پہنچا سکیں تو یہ دونوں کیا فائدہ پہنچا سکتی ہیں، پھر یہ وصیت کی کہ میری بیڑیاں نہ اتارنا اورخون نہ دھونا کہ میں اسی حالت میں معاویہ سے پل صراط پر ملوں گا۔ (استیعاب:۱/۱۳۷ ،واسد الغابہ:۱/۳۸۶) قتل وصیت وغیرہ کے بعد جلاد نے وار کیا اور ایک کشتہ ستم خاک وخون میں تڑپنے لگا یہ واقعہ ۵۱ھ میں پیش آیا۔ حجر کا قتل معمولی واقعہ نہ تھا، اپنے خاندانی اعزاز اورحضرت علیؓ کی حمایت کی وجہ سے کوفہ میں بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اس لیے اہل کوفہ میں بڑی برہمی پیدا ہوگئی، معزز ین کوفہ حضرت حسنؓ کے پاس فریاد لیکر پہنچے، آپ بیحد متاثر ہوئے ؛لیکن امیر معاویہ کی بیعت کرچکے تھے اس لیے مجبور تھے۔ اہل بیت نبوی میں بھی حجر کی بڑی وقعت تھی؛چنانچہ حضرت عائشہؓ نے جس وقت ان کی گرفتاری کی خبر سنی ،اسی وقت انہوں نے عبدالرحمن بن حارث کو امیر معاویہ کے پاس دوڑایا کہ وہ حجر اور ان کے رفقاء کے معاملہ میں خدا کا خوف کریں، لیکن یہ اس وقت پہنچے جب حجر قتل ہوچکے تھے،پھر بھی انہوں نے امیر معاویہ کو بڑی ملامت کی،امیر معاویہ نے جواب دیا میں کیا کرتا ان کی بڑی شکایات کی تھیں اور لکھا تھا کہ عنقریب یہ لوگ ایسا رخنہ پیدا کریں گے جس میں پیوند نہ لگ جائےگا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو خبر ہوئی تو زار زار رونے لگے ،خود امیر معاویہ کے آدمیوں نے اس قتل کو پسندید گی کی نظر سے نہیں دیکھا؛چنانچہ ربیع بن زیادحارثی گورنر خراسان نے سنا، تو اس درجہ متاثر ہوئے کہ دعا کی کہ خدایا اگر تیرے یہاں ربیع کے لئے بھلائی ہو تو اس کو جلد بلائے معلوم نہیں یہ دعا کس دل سے نکلی تھی کہ سیدھی بابِ اجابت پر پہنچی اورربیع کو خدانے بہت جلد بلالیا۔ حضرت عائشہؓ کو بڑا صدمہ تھا؛چنانچہ اسی سال جب امیر معاویہ حج کو گئے اورزیارت کے لیے مدینہ حاضر ہوئے اورحضرت عائشہ کی خدمت میں گئے، تو انہوں نے کہا معاویہ تم کو میرے پاس آتے وقت اس کا خوف نہیں ہوا کہ میں نے کسی شخص کو اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کے خون کا بدلہ لینے کے لیے چھپا دیا ہو، عرض کیا میں بیت الامان میں آیا ہوں،فرمایا تم کو حجر اوران کے ساتھیوں کے قتل کے بارہ میں خدا کا خوف نہیں معلوم ہوا، عرض کیا ان کو ان لوگوں نے قتل کیا جنہوں نے ان کے خلاف شہادت دی۔ (استیعاب:۱/۱۱۸) اولاد حجر کے دو لڑکے تھے،عبدالرحمن اورعبداللہ،لیکن یہ دونوں عبداللہ بن زبیرؓ اور امویوں کی ہنگامہ آرائیوں میں مصعب کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ (مستدرک حاکم:۲/) فضل وکمال حجر اپنے خاندانی اعزاز و مرتبہ کے علاوہ صحابۂ کرام کی جماعت میں بھی ممتاز اوربلند پایہ شخصیت رکھتے تھے، علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں: کان فضلاء الصحابۃ وصغر سنہ عن کبارھم یعنی حجر فضلائے صحابہ میں تھے اوراپنی صغر سنی کے باوجود بڑوں میں شمار ہوتے تھے۔ مشہور تابعی محمد بن سیرین سے جب قتل سے پہلے کی نفل پڑہنے کے بارے میں پوچھا جاتا تو کہتے یہ دو رکعتیں خبیب اورحجر نے پڑھی ہیں اوریہ دونوں فاضل تھے۔