انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافت حسنی پر ایک نظر بعض مورخین نے حضرت امام حسنؓ کی شش ماہہ خلافت کو خلافتِ راشدہ میں شامل نہیں سمجھا؛کیونکہ وہ قلیل مدت کے لئے تھی اور نامکمل تھی نا مکمل کہنا اس لئے نا درست ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کو بھی پھر تونا مکمل کہہ کر خلافتِ راشدہ سے خارج کرنا پڑے گا؛حالانکہ یہ جائز نہیں،مدتِ خلافت کا کم ہونا بھی کوئی معقول وجہ نہیں ہے،حضرت امام حسنؓ کی خلافت پر اگر صبر وسکون کے ساتھ نظر ڈالی جائے تو وہ خلافتِ راشدہ کا نہایت ہی اہم حصہ ہےاور حضرت امام حسنؓ کی خلافت اگرچہ ملکی فتوحات اورجنگ وپیکار کے ہنگاموں سے خالی ہےلیکن حضرت امام حسنؓ نے جنگ کے میدان گرم کئے اور خون کے دریا بہائے بغیر اسلام اور عالمِ اسلام کو اس قدر فائدہ پہنچایا جو شاید بیسیوں برس کی خلافت اورسینکڑوں لڑائیاں لڑنے کے بعد بھی نہیں پہنچایا جاسکتا تھا، خدمتِ اسلام کے اعتبار سے حضرت امام حسنؓ یقیناً خلفاء راشدین کے پہلو بہ پہلو جگہ پانے کا حق رکھتے ہیں، انہو ں نے دس سال کی خانہ جنگی کو جس کے دُور ہونے کی توقع نہ تھی یک لخت دُور کردیا، انہوں نے منافقوں اورمسلم نما یہودیوں کی شرارتوں اورریشہ دوانیوں کو جو دس سال سے نشو ونما پاکر اب بہت طاقتور اورعظیم الشان ہوچکی تھیں یکا یک درہم برہم کردیا اورشرارت پیشہ لوگ حیراہ و مبہوت ہوکر ان کا منھ تکنے لگے انہوں نے دس سال سے رُکی ہوئی فتوحاتِ اسلامی کو پھر سے جاری ہونے کا موقع دیا،انہوں نے مشرکیں کے اطمینان کو جو دس سال سے مسلمانوں کی خانہ جنگی کا تماشا مزے لےکر دیکھ رہے تھے برباد کردیا، انہوں نے ان خاراشگاف تلواروں اورآہن گداز نیزوں کا رُخ دشمنانِ اسلام کی طرف پھیر دیا جو اس سے پہلے مسلمانوں کی گردنیں اُڑانے اورسینے زخمی کرنے میں مصروف تھے،خالد بن ولیدؓ کے بعد خالد بن ولیدؓ سے بھی بڑھ کر بہادری کا نمونہ دکھایا جبکہ کوفہ میں امیر معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اُن کے اپنے ان مختصر الفاظ سے کہ: ’’اگر امارت وخلافت امیر معاویہؓ کا حق تھا تو ان کو پہنچ گیا اوراگر یہ میرا حق تھا تو میں نے اُن کو بخش دیا‘‘۔ نہ صرف اسی زمانے کے مسلمانوں کو عظیم الشان درسِ معرفت حاصل ہوا ؛بلکہ قیامت تک کے لئے مسلمانوں کی رہبری کا عظیم الشان کام انجام دینے کی غرض سے خونخوار وبے پناہ سمندروں کی تاریکیوں میں ایک لائٹ ہاؤس قائم ہوگیا،حضرت امام حسنؓ کے پاس چالیس ہزار جنگجو فوج موجود تھی یہ فوج خواہ کیسے ہی بیوقوف اور متلون مزاج لوگوں پر مشتمل ہو اوراُن سے کیسی گستاخیاں بھی سرزد ہوئی ہوں لیکن اہل شام اورامیرِ معاویہؓ سے لڑنے اور مارنے مرنے کا حلقہ سب اُٹھائے ہوئے تھے،ایسی حالت میں ایک ۲۷ سالہ جو ان العمر جنگ آزمودہ اوربہادر باپ کا بیٹا اپنے باپ کے رقیب اور مد مقابل سے دو دو ہاتھ کئے بغیر ہر گز نہیں رہ سکتا تھا، حضرت امام حسنؓ یہ بھی جانتے تھے کہ تمام عالم اسلام اس بات سے واقف ہے کہ ہمارے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس قدر محبت تھی اور ان کو حضرت علیؓ سے بھی زیادہ اس بات کا موقع حاصل تھا کہ وہ صحابہ کرام اور عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کی حمایت وہمدردی کو تھوڑی سی مدت اور بڑی آسانی سے اپنی طرف جذب کرسکیں،ہم چشموں ،بھائیوں،ماتحتوں،جنگی افسروں کی ترغیب اورصلح کی حالت میں طعن وتشنیع بھی ان کے لئے دامن گیر تھے،وہ خود سپہ سالاری کی قابلیت اورشہنشاہی کی اہلیت بخوبی رکھتے تھے،اولوالعزمی اوربلند ہمتی اس عمر کا خاصہ ہے،لیکن خدائے تعالیٰ کی ہزاروں ہزار اوربے شمار رحمتیں حضرت امام حسنؓ کی روح پر نازل ہوں کہ انہوں نے اخلاص،ایثار اورخدمتِ اسلام کا وہ بہترین نمونہ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چھوڑا جس کی توقع خیر البشر،رحمۃ للعالمین اورجامع جمیع کمالات انسانیت کے نواسے سے ہوسکتی تھی۔ اے حسنؓ! تونے مسلمانوں کے دو ٹکڑوں کو آپس میں ملا کر ایک کردینے کا وہ عظیم الشان کام کیا ہے جو دو لخت شدہ کرۂ زمین کے جوڑنے،شق شدہ آسمان کا باہم جوڑملانے سے بھی زیادہ مشکل کام تھا، اے حسنؓ! تو نے اپنی مدتِ خلافت میں کوئی میدانِ کار زار گرم نہیں کیا،لیکن تونے دنیا کے تمام بہادروں،تمام شمشیرزنوں،تمام سپہ سالاروں،تمام ملک گیروں،تمام شیرافگنوں کی سرداری حاصل کرلی، اے حسنؓ!تیرے ہی فعل حسن کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے بحر روم اوربحر روم کے جزیروں پر قبضہ کیا،قسطنطنیہ کی فصیل تک پہنچ کر عیسائی،شہنشاہی کو ذلیل وفضیحت کیا، طرابلس الغرب،مراکو،اسپین،سندھ،افغانستان،ترکستان وغیرہ ممالک اسلامی حکومت میں شامل ہوگئے،اے حسنؓ! تونے عالمِ اسلام میں زندگی کی روح پھونک دی، اے حسنؓ! تونے اپنی شرافت کا نمونہ دکھا کر کشتِ اسلام کو ازسر نو سرسبز کیا، اے حسنؓ مسلمانوں کی ہر ایک کامیابی،مسلمانوں کی ہر ایک فتح مند ی، مسلمانوں کی ہر ایک سر بلندی تیری روح پر رحمتِ الہیٰ کی ایک بارش بن جاتی ہوگی، اے فاطمۃ الزہراؓ کے لاڈلے، اے خاندانِ ابی طالب کے ماہتاب اوراے امتِ مسلمہ کے چشم وچراغ میری روح تیری محبت میں گداز ہے، میرا دل تیری عزت وعظمت سے لبریز ہے،میرے جسم کے ہر رونگٹھے اورمیرے بدن کے ہر ذرے سے تیری مدحوثناکا ایک شور برپا ہے تیری بہادری کو ہمالہ سے زیادہ عظیم الشان ہے،تیری مردانگی بحرالکاہل سے زیادہ شوکت وجبروت رکھتی ہے،اواشجع الناس اوراواہل جنت کے سردار میری طرف سے لاتعداد سلام وصلوٰۃ برکات قبول فرما اور قیامت کے اوبہادر مجھ کو بھول نہ جا۔والسلام