انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نبی اور علماء کے اجتہاد میں فرق قرآن وحدیث سے تو یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتھاد کرنے کا اختیار تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتھاد کیا بھی ہے، اسی طرح علماء امت بھی پیش آمدہ مسائل میں جب کتاب وسنت سے رہنمائی نہیں ملتی ہے تو اجتھاد کرتے ہیں، مگر نبی اور امتی کے اجتھاد میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نبی کا اجتھاد احتمال خطاسے پاک ہوتا ہے؛ اگر نبی کا اجتھاد واقعہ کے مطابق نہ ہوتا تو فوراً تنبیہ آجاتی اور صحیح امرکی جانب رہنمائی کردی جاتی، جس کی تفصیل بعدمیں آرہی ہے، لیکن علماء امت کے اجتھاد میں یہ بات نہیں پائی جاتی، اس میں خطاء کا احتمال بہرحال باقی رہتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ علماء امت کا اجتھاد ظنی ہوتا ہے جبکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتھاد قطعی ہوتا ہے، ابتداءً اگرچہ ظنی ہوتا ہے؛ لیکن مآلاً قطعی ہوجاتا ہے اور نص کے حکم میں ہوا کرتا ہے اسی لئے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "دل الدلیل من الاجماع علی تحریم مخالفۃ اجتھادہ" (المستصفی، ۳۹۳) اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتھادی احکام کی مخالفت حرام ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تمام نصوص واضح ہوتے تھےاور نص کا ہرپہلو آپ کیلئے نمایاں ہوتا تھا۔ وسائل کے واسطے سے نتیجہ تک پہنچنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، جبکہ علماء امت کو نصوص میں غوروفکر کرنی پڑتی ہے، نتیجہ تک پہنچنے کے جو وسائل ہیں ان سے مدد لینی پڑتی ہے؛ پھر وہ نتیجہ تک پہنچتے ہیں، علماء نے صراحت کی ہے کہ جہاں کہیں حدیث میں یہ نظر آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی امرپر کسی چیز کو قیاس کیا ہے تو یہ ضرورت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھی؛ بلکہ مسئلہ کوفہم سائل کے قریب کرنا پیش نظر تھا یا طریق اجتھاد کی تعلیم مقصود تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وسائل کو اختیار کیا تھا۔ (دیکھئے:ردشبھات حول عصمۃ النبیﷺ : ۱/۵۷۶)