انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ہجرت حبشہ اولی قریش کاظلم و تعدی اس قدر بڑھ گیا تھا کہ مسلمان حرم کعبہ میں بلند آواز سے قرآن نہیں پڑھ سکتے تھے ، حضرت عبداللہؓ بن مسعود جب ایمان لائے تو انہوں نے کہا کہ میں اس فرض کوضرور پورا کروں گا، لوگوں نے انہیں منع کیا ؛لیکن باز نہ آئے ، حرم میں گئے اور مقام ابراہیم ؑ کے پاس کھڑے ہو کر سورۂ رحمن پڑھنا شروع کیا، کُفّار ہر طرف سے ٹوٹ پڑے اور ان کے منہ پر طمانچے مارنے لگے جس کی وجہ ان کے چہرے پر زخم کے نشان پڑ گئے ، حضرت ابو بکرؓ روسائے قریش میں سے تھے؛ لیکن آواز سے قرآن نہ پڑھ سکتے تھے اسی لئے ایک بار ہجرت کے لئے تیار ہو گئے تھے ، قریش کا ظلم مسلمانوں پرتو جاری ہی تھالیکن انھوں نے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر مسلمانوں کے قتل کامنصوبہ بنایا ، ان ہی دنوں یہ اطلاع ملی کہ بنی مخزوم اپنے ہی قبیلے کے تین مسلمانوں یعنی حضرت ولید ؓ بن الولید ، حضرت سلمہؓ بنت ہشام اور حضرت عباس ؓ بن ابی ربیعہ کو قتل کرنا چاہتے ہیں ، ان حالات میں سورۂ عنکبوت کی آیات ۵۶ - ۵۷ نازل ہوئیں: " اے میرے ایمان والے بندو میری زمین بہت وسیع ہے ، سو تم میری ہی عبادت کرو ،ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اورتم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے" ( سورہ ٔ عنکبوت : ۵۷ ۔۵۸) ہجرت کا اشارہ پا کر حضور اکرم ﷺنے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم روئے زمین میں منتشر ہو جاؤ،یقینا ًاللہ تعالیٰ تم سب کو عنقریب جمع کرے گا ، صحابہؓ نے عرض کیا! یا رسول اللہ ! کہاں جائیں؟ آپﷺ نے حبشہ کی طرف اشارہ فرمایااور کہا" سر زمینِ حبشہ میں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا ، پس تم اس کے ملک میں چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کر دے جس میں تم مبتلاء ہو " چنانچہ رجب ۵ نبوی میں ایک ایک دودو مسلمان چُھپتے چُھپاتے مکہ سے بندرگاہ شعیبہ (جدّہ) میں جمع ہونے لگے ، ان میں سوار بھی تھے اور پیادہ بھی ، گیارہ مرد اور چار عورتیں جمع ہو گئیں جن میں حضور اکرم ﷺ کے داماد حضرت عثمانؓ اور ان کی زوجہ حضرت رقیہ ؓ بھی تھیں ، جہازوالوں نے سستے کرایہ پر ان کو بٹھالیا، ہر شخص کو صرف پانچ درہم دینے پڑے ، قریش کو خبر ہوئی تو بندرگاہ تک تعاقب کرتے ہوئے آئے؛ لیکن موقع نکل چکا تھا( طبری ، سیرۃ النبی جلد اول ) یہ قافلہ رجب ۵ نبوی م ۶۱۴ ء میں حبشہ روانہ ہوا۔ مسلمانوں کے ایک عیسائی مملکت حبشہ میں جانے تک عقائد کی رہنمائی کے لئے سورۂ مریم کا نزول ہو چکا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت واضح کر دی گئی تھی اور اہلِ کتاب سے اچھے طریقہ سے بات کرنے کا حکم دیا گیاتھا ، اس پہلے قافلہ میں جو صحابہ ؓ کرام اور صحابیاتؓ شریک تھے ان کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں: شمار صحابۂ کرام قبیلہ حضرت عثمان بن عفان معہ زوجہ محترمہ حضرت رقیہؓ بنی امیہ حضرت زبیر ؓ بن العوام بنی اسد ، حضور ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی ،عشیرہ مبشیرہ میں سے ہیں حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف بنی زہرہ ، حضور کے ننھیالی رشتہ دار ، عشیرہ مبشیرہ میں سے ہیں حضرت مصعبؓ بن عمیر بنی عبدالدار ، ہاشم کے پوتے حضرت ابوسلمہ ؓ بن عبدالاسد معہ زوجہ حضرت اُمّ سلمہؓ بنی مخزوم حضرت ابوحذیفہ ؓ بن عتبہ معہ زوجہ حضرت سہلہ بنی عبدالشمس ،باپ قریش کا مشہور سردار تھا اس کی سختیوں کی وجہ سے گھر چھوڑنا پڑا ، حضرت ابو حاطب بن عمرو بدر میں شریک تھے حضرت عثمان ؓ بن مظعون بنی جمح ، مشہو رصحابی ہیں حضرت عامر ؓ بن ربیعہ معہ زوجہ حضرت لیلیٰ بنی عدی کے حلیف ، سابقین اولین میں سے ہیں ، بدر میں شریک تھے حضرت سہیل ؓ بن بیضاء بنی حارث حضرت ابوسیرہ ؓ بن ابی رہم عامری بنی عامر، ان کی ماں برہ حضور ﷺ کی پھوپھی تھیں صحابیات شمار نام قبیلہ شوہر کا نام ۱ حضرت رقیہؓ بنت محمد ﷺ بنی ہاشم حضرت عثمانؓ حضرت سہلہؓ بنت سہیل بنی عامر حضرت ابو حذیفہؓ حضرت اُم سلمہؓ بنت امیہ بنی مخزوم حضرت ابو سلمہؓ حضرت لیلیٰ ؓ بنت ابی حشمہ بنی عدی حضرت عامرؓ یہ خیال کہ ہجرت صرف انہی لوگوں نے کی جن کا کوئی حامی و مد د گار نہ تھاصحیح نہیں اس لئے کہ مہاجرین حبشہ کے اس پہلے قافلہ میں ہمہ درجہ کے لوگ شامل تھے، حضرت عثمانؓ بنوامیہ سے تھے جو سب سے زیادہ صاحبِ اقتدار خاندان تھا، ان کے علاوہ رئیس مکہ عتبہ کے صاحبزادے ابو حذیفہؓ بھی تھے جن سے حبشہ میں ایک لڑکا محمد بن ابوحذیفہ پیدا ہوا، دیگر صحابہ کرام مثلاً حضرت زبیرؓ بن العوام اور حضرت مصعبؓ بن عمیر خود آنحضرتﷺ کے خاندان سے ہیں ، حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت ابو سبیرہؓ بن ابی رہم بھی معمولی لوگ نہ تھے، اس بناء پر یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ قریش مکہ کا ظلم و ستم صرف بے کسوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ بڑے بڑے خاندان بھی ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے، بعض سیرت نگاروں نے اس پہلے قافلہ میں حضرت عبداللہؓ بن مسعود اور حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری کے نام بھی لکھے ہیں ، لیکن ابن اسحٰق یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود ہجرت اولیٰ میں نہیں بلکہ ہجرت ثانیہ میں تھے، ( شبلی نعمانی ، سیرۃ النبی جلد اول ) اسی طرح ہجرت کرنے والی خواتین میں بعض لوگ حضرت ابو سبیرہ ؓ کی بیوی حضرت اُم کلثومؓ بنت سہیل اور آنحضرت ﷺکی دایہ حضرت ام ایمنؓ کااضافہ کرتے ہیں جس کی تفصیل طبری میں ہے۔ ( ابن ہشام ، سیرۃ النبی جلد ا ، مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ) رجب ۵ نبوی میں یہ قافلہ حبشہ پہنچا اور سکون سے رہنے لگا ؛لیکن قریش یہ خبر یں سن کر پیچ و تاب کھاتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو حبشہ سے نکلوادیں۔