انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** گذشتہ مذاہب میں مذاہب سابقہ میں ان غیر مادی ذی روح ہستیوں کی حیثیت نہایت مشتبہ تھی وہ کبھی مخلوق کہی جاتی تھیں اور کبھی خالق کے مرتبہ تک بھی بلند کردی جاتی تھیں، ہندؤوں کے دیوی دیوتاؤوں کی یہی کیفیت تھی، پارسیوں میں "امشا سپند" کا بھی یہی حال تھا کہ کبھی ان کی حیثیت فرشتوں کی رہتی تھی، کبھی وہ حق تعالیٰ کے مقابل بن جاتی تھیں اورکبھی ان میں سے ایک اللہ ہوجاتاتھا، ہندؤوں کی طرح پارسیوں میں بھی وہ قابل پرستش سمجھی جاتی تھیں، ان کے نزدیک سب سے عالی رتبہ امشاسپند تھے پھر ان کے تحت میں۳۳ پھر ان میں سے ہر ایک کے ماتحت اچھے اور برے فرشتوں کی بے شمار تعداد تھی نیکی کے فرشتہ براہ راست نیکی کی چیزوں کو اور برائی کے فرشتہ مصیبتوں ہلاکتوں اور برائیوں کو دنیا میں پیدا کرتے تھے اور اپنے اپنے رب کی طرف سے ان اشیاء پر حاکم سمجھے جاتے تھے، دونوں رب اپنی اپنی فوجوں اور لشکروں کے پرے لےکر باہم نبرد آزما رہتے تھے، یہ بھی ان کا اعتقاد تھا کہ ہر امشاسپند یافرشتہ کے ساتھ ایک یزد یعنی مادہ (فرشتہ) بھی ہوتی تھی، جو اس کی بیوی تھی، ہندوؤں میں دیوتاؤوں اور مادہ دیویوں کا تصور تھا مگر ان نرو مادہ ہستیوں میں کسی نرکو کسی مادہ سے خصوصیت خاص نہ تھی بلکہ ہر ایک جنس کا ہرفرد دوسری جنس کے ہر فرد سے لطف اندوز ہوسکتا تھا۔ یہودیوں میں فرشتوں کی حیثیت ایسی تھی کہ ان کی تقدیس اور ثناء وصفت حق تعالیٰ سے مشتبہ ہوجاتی تھی، نظرآنیوالے فرشتہ کی تعظیم کی جاتی تھی، اس کے آگے جھکا جاتا تھا اور اس کو رب کہہ کراس طرح خطاب کیاجاتاتھا کہ کہیں کہیں یہ شبہ ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخاطب ہیں یا فرشتہ، وہ کبھی کبھی اللہ رب العزت کےبیٹےبھی کہے جاتے تھے، عیسائیوں میں ان میں سے بعض مثلا روح القدس حق تعالیٰ کا ایک جزوتسلیم ہوکر تثلیث کا رکن ہے۔ صابیوں میں فرشتوں کی قربانی کی جاتی تھی، ان کے ہیکل بنائے جاتے تھے اور ان کو مظہر حق تسلیم کیا جاتا تھا ،عربوں میں فرشتے مادہ سمجھے جاتے تھے، وہ اللہ کی بیٹیاں کہہ کر پکارے جاتے تھے ان کی پرستش ہو تی تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں سفارشی ہوں گے۔ یونانیوں میں عقل اول اور عقول عشرہ(دس فرشتے) تمام عالم کے خالق کا کارفرما اور مرجع کل مانے گئے اور اللہ تعالیٰ کو معطل(بےکار) ٹھہرایاگیا۔ (سیرۃ النبی:۴/۲۸۸،مصنف:علامہ شبلی نعمانیؒ،علامہ سیدسلیمان ندوی۔حجۃ اللہ البالغۃ، باب التوحید : ۱/۱۲۳، ۱۲۲)