انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیات طیبہ۶۱۶ء حضرت حمزہ ؓکا ایمان لانا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت حمزہؓ کو حضور سے خاص محبت تھی، وہ آپﷺ سے دو تین سال بڑے تھے اور ساتھ کے کھیلے تھے، دونوں نے ثویبہ کا دودھ پیا تھا اور اس رشتہ سے آپﷺ کے دودھ شریک بھائی تھے ، وہ ابھی تک اسلام قبول نہیں کئے تھے؛ لیکن حضور ﷺ کی ہر ادا کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے، ان کا مذاقِ طبیعت شکار اور سپاہ گری تھا، ان کا معمول تھا کہ منہ اندھیرے تیر کمان لے کر نکل جاتے اور دن بھر کے شکار کے بعد شام میں واپس ہوتے تو پہلے حرم میں جاتے اور طواف کے بعد قریش کے سرداروں کے پاس جاتے جو صحنِ حرم میں بیٹھا کرتے تھے، اس طرح سب سے ان کی دوستی تھی اور سب ان کی قدر کرتے تھے۔ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صفا کی پہاڑی پر سے گزر رہے تھے کہ ابو جہل کا سامنا ہوا ، وہ آپﷺ کا ازلی دشمن تھا ، اس نے آپﷺ کو تنہا دیکھ کر گالیاں دیں اور پتھر سے زخمی بھی کر دیا، دور سے عبداللہ بن جد عان کی آزاد کردہ کنیز کوہ صفاء پر واقع اپنے مکان سے یہ سب دیکھ رہی تھی، جب حضرت حمزہؓ شکار سے واپس ہوئے تو اس کنیز نے سارا ماجرا سنایا ، مشتعل ہو کر ابو جہل کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ وہ بنی مخزوم کے حلقہ میں بیٹھا ہے ، سیدھے وہیں پہنچے اور کمان اس کے سر پر دے ماری اور کہا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں ، (شبلی نعمانی ، سیرت النبی جلد اول) حضورﷺر کی حمایت میں انھوں نے اسلام کا اظہار تو کر دیا؛ لیکن گھر پر آئے تو متردد تھے کہ آبائی دین کو دفعتاً کیو ں کر چھوڑ دوں ، تمام دن کی غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ دین ِ حق یہی ہے، اس کے بعد حضرت حمزہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا ! برادر زادے خوش ہو جاؤ کہ میں نے ابو جہل سے آپ کا بدلہ لے لیا ہے، آپﷺ نے فرمایا ! چچا میں تو اس وقت خوش ہوتا جب آپ دینِ اسلام قبول کر لیتے،یہ سن کر حضرت حمزہؓ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا، حضرت حمزہؓ کے اسلام لانے کے بعد قریش نے سمجھ لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو قوت کے ساتھ حفاظت و حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے اس لئے آپﷺ کو ستا نا چھوڑ دیا،حضرت حمزہؓ نے غزوۂ بدر میں عتبہ کو قتل کیا، ۳ ہجری میں غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے ، حضورﷺ نے سیدالشہدأ کا خطاب دیا، اسد اللہ ان کا لقب تھا ۔