انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وقف كےاحكام warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. (۱)موقوفہ جائداد کی آمدنی ومنافع کو مقررہ خیراتی اوررفاہی مصرف ہی میں خرچ کرنا ضروری ہے۔ حوالہ شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم : شرط الواقف كنص الشارع أي : في وجوب العمل به۔ (الاشباه والنظائر كتاب الوقف۲۱۹/۱) بند (۲)وقف کی ہوئی چیز صرف اللہ کی ملکیت ہوتی ہے کسی اور کی نہیں اس لیے اس کو فروخت کرنا یا کسی اورکو ہدیہ دینا یا اس میں میراث جاری کرنا صحیح نہیں۔ حوالہ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَصَابَ عُمَرُ بِخَيْبَرَ أَرْضًا فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ مِنْهُ فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُورَثُ فِي الْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالضَّيْفِ وَابْنِ السَّبِيلِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ(بخاري بَاب الْوَقْفِ كَيْفَ يُكْتَبُ ۲۵۶۵) إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته،(الفقه الاسلامي وادلته الفَصْلُ الثَّالث : حكم الوقف، ومتى يزول ملك الواقف۳۰۵/۱۰) ( فَإِذَا تَمَّ وَلَزِمَ لَا يُمَلَّكُ وَلَا يُمْلَكُ وَلَا يُعَارُ وَلَا يُرْهَنُ) ( قَوْلُهُ : لَا يُمْلَكُ ) أَيْ لَا يَكُونُ مَمْلُوكًا لِصَاحِبِهِ وَلَا يُمَلَّكُ أَيْ لَا يَقْبَلُ التَّمْلِيكَ لِغَيْرِهِ بِالْبَيْعِ وَنَحْوِهِ لِاسْتِحَالَةِ تَمْلِيكِ الْخَارِجِ عَنْ مِلْكِهِ ، وَلَا يُعَارُ ، وَلَا يُرْهَنُ لِاقْتِضَائِهِمَا الْمِلْكَ دُرَرٌ(الدرالمختار مع الرد كتاب الوقف ۲۰۹/۱۷) بند (۳)واقف مریض ہو اور حالت مرض میں کیا ہوا وقف ہو تو دیون (قرضوں) کو ادا کرنے کے بعد متروکہ کے ایک تہائی میں لازماً وقف نافذ ہوگا، اگر ایک تہائی سے زیادہ کا وقف ہو تو زیادتی میں ورثاء کی اجازت لینا ضروری ہے اگر ورثاء اختلاف کرجائیں تو اجازت دینے والے ورثاء ہی کے حصے میں وقف نافذ ہوسکے گا۔ حوالہ عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَرِضْتُ فَعَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ لَا يَرُدَّنِي عَلَى عَقِبِي قَالَ لَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ وَيَنْفَعُ بِكَ نَاسًا قُلْتُ أُرِيدُ أَنْ أُوصِيَ وَإِنَّمَا لِي ابْنَةٌ قُلْتُ أُوصِي بِالنِّصْفِ قَالَ النِّصْفُ كَثِيرٌ قُلْتُ فَالثُّلُثِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ قَالَ فَأَوْصَى النَّاسُ بِالثُّلُثِ وَجَازَ ذَلِكَ لَهُمْ(بخاري بَاب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ۲۵۳۹)أَوْ بِالْمَوْتِ إذَا عُلِّقَ بِهِ ) أَيْ بِمَوْتِهِ كَإِذَا مِتَّ فَقَدْ وَقَفْت دَارِي عَلَى كَذَا فَالصَّحِيحُ أَنَّهُ كَوَصِيَّةٍ تَلْزَمُ مِنْ الثُّلُثِ بِالْمَوْتِ لَا قَبْلَهُ(الدرالمختار كتاب الوقف۵۳۲/۴) بند (۴)وقف کی جانے والی چیز غیر منقولہ ہو البتہ اگر منقولہ اشیاء غیر منقولہ کے تابع ہو جیسے زراعتی زمین کے تابع ہل،بیل اورآلات کا شت وغیرہ تو غیر منقولہ کے تابع منقولہ اشیاء کا بھی وقف صحیح ہوجائے گا۔ حوالہ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَصَابَ عُمَرُ بِخَيْبَرَ أَرْضًا فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ مِنْهُ فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُورَثُ فِي الْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالضَّيْفِ وَابْنِ السَّبِيلِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ(بخاري بَاب الْوَقْفِ كَيْفَ يُكْتَبُ ۲۵۶۵) وَأَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمَوْقُوفِ فَأَنْوَاعٌ : ( مِنْهَا ) أَنْ يَكُونَ مِمَّا لَا يُنْقَلُ وَلَا يُحَوَّلُ كَالْعَقَارِ وَنَحْوِهِ ، فَلَا يَجُوزُ وَقْفُ الْمَنْقُولِ مَقْصُودًا لِمَا ذَكَرْنَا أَنَّ التَّأْبِيدَ شَرْطُ جَوَازِهِ ، وَوَقْفُ الْمَنْقُولِ لَا يَتَأَبَّدَ لِكَوْنِهِ عَلَى شَرَفِ الْهَلَاكِ ، فَلَا يَجُوزُ وَقْفُهُ مَقْصُودًا إلَّا إذَا كَانَ تَبَعًا لِلْعَقَارِ ، بِأَنْ وَقَفَ ضَيْعَةً بِبَقَرِهَا وَأَكَرَتِهَا وَهُمْ عَبِيدُهُ فَيَجُوزُ ، كَذَا قَالَهُ أَبُو يُوسُفَ۔(بدائع الصنائع فصل في شرائط جواز الوقف ۱۴۵/۱۴)۔بند (۵)جو چیز وقف کی جائے وہ شریعت کی نظر میں قیمت رکھنے والا مال ہو لہذا جو چیز شرعاً مال ہی نہ ہو، جیسے شراب، اس كا وقف صحیح نہیں اس لیے كہ یہ شریعت کی نظر میں مال ہی نہیں ہے، یا ایسا مال ہو جس کی خرید و فروخت شرعاً جائز نہیں ہے، جیسے ہدايت كے راستے سے ہٹا دينے والی كتابیں تو اس کا وقف معتبر نہیں۔ حوالہ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدة: ۲)فقال الحنفية: يشترط في الموقوف أربعة شروط هي ما يأتي: أن يكون الموقوف مالاً متقوماً عقاراً: فلا يصح وقف ما ليس بمال كالمنافع وحدها دون الأعيان، وكالحقوق المالية مثل حقوق الارتفاق؛ لأن الحق ليس بمال عندهم ولايصح وقف ما ليس بمال متقوم شرعاً كالمسكرات وكتب الضلال والإلحاد، إذ لا يباح الانتفاع به، فلا يتحقق المقصود من الوقف وهو نفع الموقوف عليه ومثوبة الواقف۔ (الفقه الاسلامي وادلته، المبحث الثاني، شروط الموقوف۳۲۰/۱۰) بند (۶)وقف کی جانے والی چیز وقف کرتے وقت واقف کی ملکیت میں ہو لہذا ملکیت میں آنے سے پہلے کا وقف معتبر نہ ہوگا۔ حوالہ الْخَامِسُ مِنْ شَرَائِطِهِ الْمِلْكُ وَقْتَ الْوَقْفِ حَتَّى لَوْ غَصَبَ أَرْضًا فَوَقَفَهَا ثُمَّ اشْتَرَاهَا مِنْ مَالِكِهَا وَدَفَعَ الثَّمَنَ إلَيْهِ أَوْ صَالَحَ عَلَى مَالٍ دَفَعَهُ إلَيْهِ لَا تَكُونُ وَقْفًا لِأَنَّهُ إنَّمَا مَلَكَهَا بَعْدَ أَنْ وَقَفَهَا۔(البحر الرائق شرائط الوقف ۲۵۱/۱۴) بند (۷)جو چیز وقف کی جارہی ہے وہ معلوم و متعین ہو لہذا اگر کوئی کہے کہ میری زمین کا کچھ حصہ میں وقف کررہا ہوں تو اس کا یہ وقف ابہام کے ساتھ درست نہ ہوگا اس لیے وقف کرتے وقت جگہ کی تعیین حدود وغیرہ بتادیئے جائیں۔ حوالہ ( وَشَرْطُهُ شَرْطُ سَائِرِ التَّبَرُّعَاتِ ) كَحُرِّيَّةٍ وَتَكْلِيفٍ ( وَأَنْ يَكُونَ ) قُرْبَةً فِي ذَاتِهِ مَعْلُومًا ( مُنَجَّزًا ) لَا مُعَلَّقًا إلَّا بِكَائِنٍ ، وَلَا مُضَافًا ، وَلَا مُوَقَّتًا وَلَا بِخِيَارِ شَرْطٍ (وفي الشامي) أَفَادَ أَنَّ الْوَاقِفَ لَا بُدَّ أَنْ يَكُونَ مَالِكُهُ وَقْتَ الْوَقْفِ مِلْكًا بَاتًّا وَلَوْ بِسَبَبٍ فَاسِدٍ ، وَأَنْ لَا يَكُونَ مَحْجُورًا عَنْ التَّصَرُّفِ ، حَتَّى لَوْ وَقَفَ الْغَاصِبُ الْمَغْصُوبَ لَمْ يَصِحَّ ، وَإِنْ مَلَكَهُ بَعْدُ بِشِرَاءٍ أَوْ صُلْحٍ۔ (الدر المختار علي الرد كتاب الوقف۱۷۵/۱۷) بند (۸)وقف کا مقصد ثواب حاصل کرنا ہو جیسے مسجد، مدرسہ، مسافر خانہ وغیرہ یا علماء،فقراء وغیرہ یا زید خالد وغیرہ کے لیے وقف ہو تو درست ہوگا اگر ثواب کے لیے نہ ہو تو پھر وقف صحیح نہ ہوگا جیسے گرجا،چرچ وغیرہ کے لیے صحیح نہیں۔ حوالہ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدة: ۲) (قَوْلُهُ : وَأَنْ يَكُونَ قُرْبَةً فِي ذَاتِهِ ) أَيْ بِأَنْ يَكُونَ مِنْ حَيْثُ النَّظَرُ إلَى ذَاتِهِ وَصُورَتِهِ قُرْبَةً ، وَالْمُرَادُ أَنْ يَحْكُمَ الشَّرْعُ بِأَنَّهُ لَوْ صَدَرَ مِنْ مُسْلِمٍ يَكُونُ قُرْبَةً حَمْلًا عَلَى أَنَّهُ قَصَدَ الْقُرْبَةَ۔ (الدر المختار علي الرد كتاب الوقف۱۷۵/۱۷) بند (۹)وقف کسی محدود مدت کے لیے نہ کیا گیا ہو بلکہ ہمیشہ کے لیے وقف کیا گیا ہو لہذا اگر کوئی ایک مہینہ یا ایک سال کے لیے وقف کرے تو درست نہ ہوگا۔ حوالہ أَنْ لَا يَكُونَ مُؤَقَّتًا قَالَ الْخَصَّافُ لَوْ وَقَفَ دَارِهِ يَوْمًا أَوْ شَهْرًا لَا يَجُوزُ لِأَنَّهُ لَمْ يَجْعَلْهُ مُؤَبَّدًا۔ (البحر الرائق شرائط الوقف ۲۵۹/۱۴) بند (۱۰)مسجد ایک بار مسجد بن گئی ہو تو ہمیشہ کے لیے مسجد ہی رہے گی ،خواہ وہ ویران اور ناقابل استعمال ہوجائے ،اس پر سب ائمہ کا اتفاق ہے۔ حوالہ قَالَ ( وَمَنْ اتَّخَذَ أَرْضَهُ مَسْجِدًا لَمْ يَكُنْ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيهِ وَلَا يَبِيعَهُ وَلَا يُورَثُ عَنْهُ ) لِأَنَّهُ تَجَرَّدَ عَنْ حَقِّ الْعِبَادِ وَصَارَ خَالِصًا لِلَّهِ ، وَهَذَا لِأَنَّ الْأَشْيَاءَ كُلَّهَا لِلَّهِ تَعَالَى ، وَإِذَا أَسْقَطَ الْعَبْدُ مَا ثَبَتَ لَهُ مِنْ الْحَقِّ رَجَعَ إلَى أَصْلِهِ فَانْقَطَعَ تَصَرُّفُهُ عَنْهُ كَمَا فِي الْإِعْتَاقِ(فتح القدير، فَصْلٌ وَإِذَا بَنَى مَسْجِدًا لَمْ يَزُلْ مِلْكُهُ عَنْهُ۱۴۲/۱۴)قال الحنفية: للمسجد بمجرد القول ( أي الوقف ) على المفتى به صفة الأبدية، فلا تنسلخ عنه صفة المسجدية ولو استغني عنه، فلو خرب المسجد وليس له ما يعمر به، وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر، يبقى مسجداً عند أبي حنيفة وأبي يوسف أبداً إلى قيام الساعة، وبرأيهما يفتى،(۳۵۳/۱۰) بند (۱۱)واقف کی جو شرطیں شریعت اوروقف کے مفاد کے خلاف نہ ہو تو ان کی رعایت کرنا واجب ہے لہذا وقف کو جس جائز مصرف میں خرچ کرنے کی شرط لگائی گئی اسی مصرف میں خرچ کرنا ضروری ہے۔ حوالہ شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي : في وجوب العمل به وفي المفهوم والدلالة۔ (الاشباه والنظائر كتاب الوقف۲۱۹/۱) بند (۱۲)وقف کی ہوئی چیز کو بیچ کر دوسری چیز خریدنا یا موقوفہ شی کا دوسری شی سے تبادلہ کرنا یہ بہت ہی اہم اورنازک مسئلہ ہے، واقف نے اپنے لیے یا کسی اور کے لیے حق استبدال کی شرط لگادی ہے تو متعلق شخص کو اس کا حق حاصل ہوگا، اگر شرط نہیں لگائی گئی یا وقف نامہ میں استبدال کا کوئی ذکر ہی موجود نہیں یا یہ صراحت کردی گئی کہ کسی کو اس وقف میں استبدال کا حق نہیں ہوگا ایسی صورت میں دو طرح کے حالات ہوتے ہیں: (پہلی صورت) استبدال کے بغیر وقف سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ ہو تو دیانت دار قاضی کی اجازت سے استبدال جائز ہے۔ (دوسری صورت) موقوفہ شئی تو اب بھی قابل انتفاع ہولیکن استبدال کے ذریعہ اس کو زیادہ نفع بخش بنایا جاسکتا ہو تو اس صورت میں دو قول ہیں: جائز کا بھی اور ناجائز کا بھی، لیکن استبدال کی صورت میں یہ باتیں ملحوظ رکھیں: (الف) اراضی وقف معمولی قیمت پر فروخت نہ کی جائے بلکہ ان کی مناسب اور مروجہ قیمت حاصل کی جائے۔ (ب) بیچنے کی اجازت دیانت دار اور ذمہ دار ادارہ کو حاصل ہو۔ (ج) موقوفہ اراضی اورمکانات کے بدلے مکانات اوراراضی ہی حاصل کی جائیں ،روپیہ ،پیسہ سے تبادلہ نہ ہو،اگر روپیہ پیسہ لیا گیا ہو تو فورا اس سے غیر منقولہ جائداد خریدلی جائے ۔ حوالہ حالات الاستبدال: الاستبدال عند الحنفية ثلاثة أنواع:الأول ـ أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره، أو لنفسه وغيره، بأن شرط الواقف في وقفيته الاستبدال بالموقوف أرضاً أخرى، أو شرط بيعه، جاز الاستبدال على الصحيح، ويشتري بالثمن أرضاً أخرى إذا شاء، فإذا فعل، صارت الأرض الثانية كالأولى في شرائطها.الثاني ـ ألا يشرطه الواقف، بأن شرط عدمه أو سكت، لكن صار الموقوف بحيث لا ينتفع به بالكلية، بألا يحصل منه شيء أصلاً، أو لا يفي بمؤنته، فهو أيضاً جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي، وكان رأيه المصلحة فيها.الثالث ـ ألا يشرطه الواقف أيضاً، ولكن فيه نفع في الجملة، وبدله خير منه ريعاً ونفقاً. وهذا لايجوز استبداله على الأصح المختار.شروط الاستبدال: إذا كان الوقف عقاراً غير مسجد، فالمعتمد أنه يجوز للقاضي الاستبدال به للضرورة بلا شرط الواقف، بشروط ستة:1ً أن يخرج الموقوف عن الانتفاع به بالكلية، أي يصبح عديم المنفعة.2ً ألا يكون هناك ريع للوقف يعمر به.3ً ألا يكون البيع بغبن فاحش.4ً أن يكون المستبدل قاضي الجنة: وهو ذو العلم والعمل، لئلا يؤدي الاستبدال إلى إبطال أوقاف المسلمين، كما هو الغالب في الزمن الأخير.5ً أن يستبدل به عقار لا دراهم ودنانير، لئلا يأكلها النظار؛ ولأنه قل أن يشتري بها الناظر بدلاً. وأجاز بعضهم الاستبدال به نقوداً، ما دام المستبدل قاضي الجنة.6ً ألا يبيعه القاضي لمن لا تقبل شهادته له، ولا لمن له عليه دين، خشية التهمة والمحاباة.فإذا لم تتوافر هذه الشروط كان بيع الوقف باطلاً لا فاسداً. وإذا صح بيع الحاكم بطل وقفية ما باعه، ويبقى الباقي على ما كان۔(الفقه الاسلامي وادلته الفَصْلُ الثَّامن : استبدال الوقف وبيعه حالة الخراب ۳۵۵/۱۰) بند (۱۳)موقوفہ جائداد کا ذمہ دار (متولی) خود واقف ہوگا،یا وہ جس کو مقرر کردے اگر اس کا انتقال ہوجائے تو قاضی کو اختیار ہوگا کہ وہ کسی کو منتظم مقرر کردے۔ حوالہ الْمَوْضِعُ الثَّانِي فِي النَّاظِرِ بِالشَّرْطِ قَدَّمْنَا أَنَّ الْوِلَايَةَ لِلْوَاقِفِ ثَابِتَةٌ مُدَّةَ حَيَاتِهِ وَإِنْ لَمْ يَشْتَرِطْهَا(البحر الرائق النَّاظِرِ بِالشَّرْطِ في الوقف ۴۲۹/۱۴) وَإِنْ جَعَلَ وِلَايَتَهُ إلَى مَنْ يَخْلُفُ مِنْ وَلَدِهِ وَلَّى الْقَاضِي أَمْرَ الْوَقْفِ رَجُلًا يَخْلُفُ وَلَدَهُ وَيَكُونُ مَوْضِعًا لِلْوِلَايَةِ فَتَكُونُ الْوِلَايَةُ إلَيْهِ وَهَذَا اسْتِحْسَانٌ۔(هندية الْبَابُ الْخَامِسُ فِي وِلَايَةِ الْوَقْفِ وَتَصَرُّفِ الْقَيِّمِ فِي الْأَوْقَافِ ۴۷۶/۱۸) بند (۱۴)متولی کو وقف کی ذمہ داری ادا کرنے میں اجرت دی جاسکتی ہے۔ حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ(ابو داود بَاب فِي صَفَايَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَمْوَالِ ۲۵۸۲) بند