انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت جارود ؓبن عمرو نام ونسب بشرنام، ابو منذر کنیت،جارود لقب، نسب نامہ یہ ہے، جارود بن عمرو بن معلی عہدی، قبیلہ عبد قیس کے سردار تھے، جارود کا لقب ایک خاص واقعہ کی یادگار ہے، زمانہ جاہلیت میں انہوں نے قبیلہ بکر بن وائل کو لوٹ کر بالکل صاف کردیا تھا، "جرد" کے معنی بے برگ دبار کے ہیں، اس لیے جارود ان کا لقب پڑگیا، اسی واقعہ کو بطور مثال کے ایک شاعر کہتا ہے: ودسناهم بالخيل من كل جانب ... كما جرد الجارود بكر بن وائل (اسد الغابہ:۱/۲۶۱،استیعاب،تذکرہ جارود) اسلام جارودؓ مذہباً عیسائی تھے،قبیلہ عبد قیس کے وفد کے ساتھ ۱۰ھ میں مدینہ آئے، آنحضرتﷺ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا، انہوں نے کہا محمدﷺ میں ایک مذہب پر تھا، اب تمہارے مذہب کے لیے، اپنا مذہب چھوڑنے والا ہوں کیا میرے تبدیل مذہب کے بعد تم میرے ضامن ہوگے؟ فرمایا ہاں میں ضامن ہوں، خدا نے تم کو تمہارے مذہب سے بہتر مذہب کی ہدایت کی، اس مختصر سوال وجواب کے بعد جاردواسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے،ان کے ساتھ ان کے اورساتھی بھی مشرف باسلام ہوئے، (سیرۃ ابن ہشام:۲/۳۶۶) آنحضرتﷺ کو ان کے اسلام لانے پر بڑی مسرت ہوئی اور ان کی بڑی عزت و توقیر کی (اسد الغابہ:۱/۳۶۱) قبول اسلام کے بعد وطن لوٹنے کیلئے آنحضرتﷺ سے سواری مانگی، لیکن سواری کا انتظام نہ ہوسکا، تو جارودؓ نے اجازت مانگی کہ یا رسول اللہ ! راستہ میں ہم کو دوسروں کی بہت سی سواریاں ملیں گی، ان کو کام میں لانے کی اجازت ہے؟ فرمایا نہیں انہیں آگ سمجھو غرض جارودؓ خلعتِ اسلام سے سرفراز ہونے کے بعد وطن واپس گئے۔ (سیرۃ ابن ہشام:۲/۳۶۶) فتنہ ارتداد فتنہ ارتداد میں ان کے قبیلہ کے بہت سے آدمی مرتد ہوگئے،لیکن ان کی استقامت ایمانی میں کوئی تزلزل نہ آیا اوراپنے اسلام کا اعلان کرکے دوسروں کو ارتداد سے روکتے تھے۔ (ایضاً) شہادت حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بصرہ میں اقامت اختیار کرلی اورایران کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے، باختلافِ روایت فارس یا نہاوند کے معرکہ میں شہید ہوئے۔ فضل وکمال ابو مسلم انجدی، ابو القموس،زید بن علی اورمحمد بن سیرین نے ان سے روایت کی ہے ،جارودؓ شاعر بھی تھے، اشعارذیل بارگاہِ نبوی میں بطور نذرِ عقیدت پیش کئے تھے: شهدت بأن الله حق وسامحت بنات فؤادي بالشهادة والنهض فأبلغ رسول الله عني رسالة بأبن حنيف حيث كنت من الأرض وأجعل نفسي دون كل ملمة لكم جنة من دون عرضكم عرضي (اصابہ:۱/۲۳۶) اخلاق جارودؓ کے صحیفۂ اخلاق میں ،حریت ،آزادی،جرات اوراظہارِ حق میں بے باکی کا عنوان نہایت جلی تھا، جس بات کو وہ حق سمجھ لیتے تھے،اس کے اظہار میں وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے، ایک مرتبہ بحرین کے گورنر قدامہ بن مظعون کو بعض رومیوں نے شراب پیتے ہوئے دیکھا جارودؓ کو اس کا علم ہوا تو حضرت عمرؓ کے پاس آکر کہا، امیر المومنین! قدامہ نے شراب پی ہے، ان پر شرعی حد جاری کیجئے ،آپ نے شہادت طلب کی، جارودؓ نے ابو ہریرہؓ کو پیش کیا، ابو ہریرہؓ نے شہادت دی کہ میں نے نشہ کی حالت میں قے کرتے ہوئے دیکھا ہے، حضرت عمرؓ نے قدامہ کو طلب کیا، وہ آئے ان کے آنے کے بعد جارودؓ نے پھر کہا،کہ امیر المومنین کتاب اللہ کی رو سے حد جاری کیجئے، حضرت عمرؓ نے فرمایا تم کو اتنا اصرار کیوں ہے، تم گواہ ہو مدعی نہیں ہو، تمہارا کام شہادت دینا تھا، اسے تم پورا کر چکے، اسوقت جارودؓ خاموش ہوگئے، لیکن دوسرے دن پھر اصرار شروع کیا، شہادت ناکافی تھی، اس لیے حضرت عمرؓ کو جارودؓ کا بیجا اصرار ناگوار ہوا،فرمایا تم تو مدعی بنے جاتے ہو، حالانکہ صرف ایک شہادت ہے جو ثبوت کیلئے کافی نہیں، اس اعتراض پر جارودؓ نے کہا عمرؓ میں تم کو خدا کی قسم دلاتا ہوں کہ حد میں تاخیر نہ کرو، آخر میں جارودؓ کی بیجا ضد پر حضرت عمرؓ کو تنبیہ کرنا پڑی، کہ تم خاموش رہو ،ورنہ میں بری طرح پیش آؤں گا، اس تنبیہ پر جارودؓ نے غضب آلودہ ہوکر کہا، عمرؓ حق اس کانام نہیں ہے کہ تمہارا ابن عم شراب پئے اورتم الٹے مجھ کو برے سلوک کی دھکمی دو، آخر میں جب قدامہ کی بیوی نے شہادت دی توحضرت عمرؓ نے حد جاری کرائی۔ (اس واقعہ کو تمام ارباب سیر نے قدامہ کے حالات میں لکھا ہے)