انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلفائے راشدین اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلوۃُ وَالسَّلامُ علیٰ سَیّد الْمُرْسَلِیْنَ وَعَلیٰ اٰلہٖ الطَّاھِرِیْنَ وَخُلْفَائہ رَاشِدِ یْن اس سے پہلے کہ"خلفائے راشدین" کے حالات پڑھے جائیں ضرورت ہے کہ خلافتِ راشدہ کا مفہوم ومنشاء سمجھ لیا جائے،خلافت کے لغوی معنی ‘‘جانشینی’’ اورکسی کی جگہ پر اس کے بعد بیٹھنے کےہیں،یہ لفظ خود اپنے مفہوم ومنشاء کو ظاہر کررہا ہے کہ وہ ایک اصل کا سایہ،ایک آئینہ کا عکس اورایک حقیقی منصب کی قائم مقامی ہے،اسی کو ‘‘امام’’کے لفظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اوریہ دونوں لفظ خلیفہ اورامام ایک ہی شخص کی دومختلف حیثیتوں کو ظاہر کرتے ہیں، اپنے پیش روکے نائب اورقائم مقام ہونے کے لحاظ سے وہ خلیفہ اوراپنے زمانے کے پیرووں کے لحاظ سے وہ امام اورپیشواہے، اس بناپر درحقیقت خلافت وامامت پیغمبر کی قائم مقامی اوراس کے بعد اس کی امت کی پیشوائی ہے،صحیحین میں یہ حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ‘‘تم سے پہلے بنی اسرائیل میں پیغمبر اورانبیاء سیاست کرتے تھے،جب ایک پیغمبر مرتا تھا تو دوسرا پیغمبر پیدا ہوتا تھا ؛لیکن پیغمبری اب ختم ہوگئی،تم میں خلفاء ہوں گے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خلافت، پیغمبری کی نیابت اورقائم مقامی ہے اورنبوت کے بعد اسلام میں یہ سب سے بڑا درجہ اوررتبہ ہے،اسی لئے ان امور میں جن کی نسبت پیغمبری کی وحی اورفیصلہ موجود نہ ہو اس کا حکم اورفیصلہ بھی واجب الاطاعت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘میرے بعد میرے ہدایت پائے ہوئے جانشینوں کی پیروی کرو،اسی لئے ایک پیغمبر کے انتخاب کے لئے ظاہری حیثیت سے اس کی سیاسی وانتظامی استعداد وصلاحیت کو دیکھا جائے، اس سے بہت زیادہ اس کے اندر پیغمبرانہ صحبت کی اثرپذیرائی اوراس کے روحانی و علمی واخلاقی فضائل ومناقب کی تلاش کرنی چاہئے، ان چار بزرگوں کا درجہ بدرجہ اس منصبِ اعظم کے لئے انتخاب اس نقطۂ نظر کی تشریح وتوضیح ہے۔ اسلام میں خلافت کے فرائض اس قدر وسیع اورعالمگیر ہیں کہ تمام دینی و دنیوی مقاصد کی تکمیل اس کے تحت میں آجاتی ہے؛ لیکن ان کی اجمالی تشریح صرف ایک فقرہ میں کی جاسکتی ہے،یعنی پیغمبر کے کاموں کو قائم اورباقی اورہرخارجی آمیزش سے پاک وصاف رکھنا اوران کو ترقی دینا،یہ فقرہ ایک لفظ میں بھی سما سکتا ہے،یعنی ‘‘اقامتِ دین’ لیکن یہ لفظ خود اس قدر وسیع ہے کہ تمام دینی ودنیوی مقاصد کو شامل ہوجاتا ہے اوراقامت ارکانِ اسلام مثلا ًنماز، روزہ ،حج ،زکوٰۃ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر،جہاد،منصب قضاۃ،اقامتِ حدوداوروعظ وپندوتعلیم وغیرہ سب اس کے جزئیات میں داخل ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی ان ہی مقاصد کی تکمیل میں صرف ہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ وجانشین ہوئے،انہوں نے بھی اپنی زندگی کو ان ہی مقاصد کی تکمیل کے لئے وقف کیا،خلفاء کے دور ؛بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اگرچہ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے الگ الگ اشخاص مقرر تھے،مثلاً نماز کی امامت اورصدقات وزکوٰۃ کے وصول کرنے کا کام مخصوص اشخاص سے متعلق تھا، برائیوں پر روک ٹوک کرنے کے لئے اوراشخاص معین تھے،مقدمات کے فیصلہ کا کام مخصوص اشخاص سے لیا جاتا تھا،قرآن وسنت کی تعلیم اور لوگ دیتے تھے؛ لیکن خلافت کی تعریف ان تمام مقاصد کو شامل ہے،اس لئے ان اشخاص کے لئے متفرق طورپر جن اوصاف کی ضرورت ہے خلیفہ کو ان سب کا جامع ہونا چاہئے؛لیکن ان ظاہری اوصاف کے علاوہ روحانی فضائل کے لحاظ سے خلیفہ میں پیغمبرانہ تعلیم وتاثیر کا فیضان پورے جوش کے ساتھ جاری رہتا ہے، پیغمبر جن لوگوں میں اس قسم کی روحانی استعداد دیکھتا ہے،اشارات وتلویحات کے ذریعہ ان ہی کو اپنا خلیفہ اورجانشین مقررکرتا ہے،زمانہ کے انقلاب اورحالات کے تغیر نےاسلام کے حقیقی نصب العین کو چالیس سال کے بعد بدل دیا اوران لوگوں کے ہاتھوں میں یہ منصب چلا گیا جو اندرونی وباطنی و روحانی حیثیت سے اس کے لائق نہ تھے؛ بلکہ ان کو صرف ظاہری طورپر ثقہ، متدین،پاکباز،پابندارکانِ اسلام اورعالم بالکتاب والسنۃ دیکھ کر امام وخلیفہ تسلیم کرلیا گیا ؛لیکن ایک پیغمبر کی نگاہ ان ظاہری صفات کے ساتھ مخصوص روحانی فضائل وکمالات پر بھی پڑتی ہے اور ان ہی فضائل و کمالات کے لحاظ سے قرآن وحدیث میں ایسے مخصوص اشارات پائے جاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خلافِت کاملہ کا حقیقی مستحق صرف صحابہ ؓ کا گروہ تھا؛چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ خدا وند تعالی نے اپنے بندوں کے دل دیکھے تو ان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سب سے بہتر پایا،اس لئے اس کو چن لیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر بناکر مبعوث فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کے بعد اپنے بندوں کے دل دیکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ؓ کے دل کو سب سے بہتر پایا اس لئے ان کو اپنا وزیر بنالیا ،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ صحابہ ؓ کا پورا گروہ خلیفہ نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے خود اس گروہ میں ایسے مخصوص قیود اوصاف کا اضافہ کیا گیا جس سے خلافت کا مفہوم خدا اوررسول کے منشاء کے مطابق محدود ہوکر بالکل مکمل ہوجائے اورجن لوگوں میں یہ اوصاف موجود ہوں ان کی نسبت یہ اطمینان حاصل ہوسکے کہ وہ خلافت کو صحیح اصول پر چلائیں گے؛چنانچہ قرآن وحدیث کے اشارات وتلویحات سے خلافت کے مفہوم کی تکمیل کے لئے جن مخصوص اوصاف کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں: (۱)خلیفہ مہاجرین اول میں سے ہو، صلح حدیبیہ اوردوسرے اہم غزوات مثلاً بدر وتبوک میں شامل اور سورۂ نور کے اترنے کے وقت موجود رہا ہو؛چنانچہ خدا وندتعالی مہاجرین اول کے متعلق فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وہ لوگ جن کو ہم اگرزمین میں جگہ دیدیں گے تو یہ لوگ نماز قائم کریں گے زکوٰۃ دیں گے،نیکی کا حکم دیں گے اوربرائی سے روکیں گے۔ (الحج:۴۱) اوریہ تمام چیزیں مقاصدِ خلافت میں شامل ہیں، شرکائے صلح حدیبیہ کی نسبت ارشاد ہوتا ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِoوَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ۔ (الفتح:۲۹) محمد رسول اللہ اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس گروہ کے ذریعہ سے اعلاء کلمۃ اللہ ہوگا جو خلافت کا سب سے بڑا مقصد ہے،جو لوگ سورۂ نور کے اترنے کے وقت موجود تھے ان کی نسبت ارشاد ہوتا ہے: وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْo وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَہُمْ ۔ (نور:۵۵) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اورنیک کام کئے ان سے خدانے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین کا خلیفہ بنائےگا جیساکہ ان لوگوں کو خلیفہ بناچکا ہے جو ان سے پہلے تھے اوران کے اس دین کو جو ان کے لئےپسند کیا ہے مضبوط کردے گا۔ اب اس آیت میں"مِنْکُمْ"کے لفظ سے وہی جماعت مراد ہے جو اس موقع پر موجود تھی اوریہ اگر عام مسلمان مرد ہوتے تو ایمان وعمل صالح کے لحاظ کے ساتھ یہ لفظ بیکار ہوجاتا،بہرحال اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مخصوص جماعت سے خدا نے خلافت کا وعدہ کیا ہے اوراس کے ذریعہ سے دین کو استحکام حاصل ہوگا،شرکائے بدروتبوک کے فضائل میں اس قسم کی آیات واحادیث وارد ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خلافت کے لئے جن اوصاف کی ضرورت ہے وہ ان میں موجود تھے۔ (۲)وہ مبشر بالجنہ ہیں۔ (۳)وہ امت کے طبقہ علیاء یعنی صدیقین ،شہداء،صالحین، اورمحدثین میں شامل ہو اورجنت میں ان کا درجہ بلند ہو۔ (۴)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ اس کے ساتھ ایسا ہو جیسا کہ مستحق خلافت کے ساتھ ہوسکتا ہے،مثلاًآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے استحقاقِ خلافت کاذکر کیا ہو، ایسے قرائن بیان فرمائے ہوں کہ جن سے فقہاء صحابہ ؓ نے یہ سمجھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ بناتے تو اسی شخص کو بناتے جو کام نبوت سے تعلق رکھتے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اس سے لئے ہوں۔ (۵)خداوندتعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وعدے کئے ہوں وہ اس کی ذات سے پورے ہوں۔ (۶)اس کا قول حجت ہو۔ یہ اوصاف اگرچہ متفرق طورپر بہت سے صحابہ ؓ میں پائے جاتے تھے ؛لیکن ان کا مجموعہ صرف خلفائے اربعہ ؓ کی ذات تھی؛چنانچہ ان اوصاف کو اگر بہ ترتیب پیش نظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے کوئی وصف ایسا نہیں ہے جو ان کی ذات میں موجود نہ تھا، یہ لوگ مہاجرین اولین میں سے تھے، صلح حدیبیہ میں شریک تھے، بدر، احد اورتبوک اور دوسرے اہم غزوات میں شریک تھے اورسورۂ نور کے اترنے کے وقت موجود تھے،مبشر بالجنۃ تھے، امت کے طبقہ علیا سے تھے؛چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکر،حضرت عمر، حضرت عثمان ؓ، حضرت علی، حضرت طلحہ اورحضرت زبیر ؓ ایک پہاڑ پر تھے کہ ایک چٹان ہلنے لگی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا‘‘ٹھہر تجھ پر صرف نبی یا صدیق یا شہید ہیں۔’’ ہر ایک خلیفہ کے متعلق الگ الگ بھی اس قسم کی حدیثیں وارد ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمام امت میں نہایت بلند درجہ رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر ؓ کی نسبت ارشاد فرمایا کیا تم پہلے شخص نہیں ہو جو میری اُمت میں سےجنت میں داخل ہوگے،تم حوضِ کوثر پر میرے رفیق ہو اورغار میں میرے رفیق تھے۔‘‘حضرت عمرؓ کی نسبت ارشاد ہوا کہ گذشتہ امتوں میں محدثین تھے اگر میری امت میں کوئی محدث ہوگا تو وہ عمر ؓ ہوں گے، بہت سی آیتیں حضرت عمر ؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس حدیث کے مصداق تھے،حضرت عثمان کی نسبت فرمایا کہ جس سے فرشتے شرماتے ہیں کیا میں اس سے نہ شرماؤں،ہر پیغمبر کے رفیق ہوتے ہیں اورجنت میں میرا رفیق عثمانؓ ہے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت ارشاد ہوا کہ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ میرے ساتھ تم کو وہی نسبت حاصل ہو جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ کے ساتھ تھی، کل میں یہ جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اوراس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے اوراس کو اللہ اوراس کے رسول محبوب رکھتے ہیں۔’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بزرگوں کے ایسے اوصاف بیان فرمائے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہی خلافت کے حقیقی مستحق تھے؛چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت پر سب سے زیادہ رحمدل ابوبکر ؓ، خداکے بارے میں سب سے زیادہ بولنے والے عمر ؓ،سب سے زیادہ حیادار عثمان ؓ اورسب سے بڑے قاضی علی بن ابی طالب ؓ ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ اگر تم لوگ ابوبکر ؓ کو امیر بناؤ گے تو ان کو دنیا کا حقیر سمجھنے والا اورآخرت کا شائق پاؤ گے، اگر عمرؓ کو امیر بناؤ گے تو ان کو قوی امین پاؤ گے اورمیرا خیال ہے کہ تم لوگ ایسا نہ کروگے تو ان کو ہدایت کرنے والا اورہدایت یافتہ پاؤگے۔ ان اوصاف کے ساتھ جو کام منصب نبوت سے تعلق رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ان سے دوکام لئے ہیں، مثلاً ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو متعدد مواقع پر اپنی جگہ امام بنایا ہے اورامیرالحج مقرر فرمایا ہے،مسلمانوں کے معاملہ میں ہمیشہ شیخین سے مشورے کئے ہیں، حضرت عمرؓ کو بعض غزوات کا امیر بنایا ہے اورصدقات مدینہ کا عامل مقرر فرمایا ہے،حضرت عثمان ؓ سے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں سفیر کا کام لیا ہے اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کو یمن کا قاضی مقرر کرکے بھیجا ہے۔ خداوندتعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وعدہ کئے تھے وہ ان کے زمانے میں پورے ہوئے،مثلاً اقامت صلوٰۃ،ایتائے زکوٰۃ،امربالمعروف،نہی عن المنکر اورتمکین وتقویت دین سے وہ وعدے پورے ہوئے جو آیت "اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ"(الحج:۴۱)اور"وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ"(النور:۵۵) میں کئے گئے تھے، اسلام کے مقابل میں یہودیت نصرانیت اورمجوسیت کے مغلوب ہوجانے سے،‘‘ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدين كُلّهِ’’(الاحقاف:۹)کی بشارت پوری ہوئی اورفتوحات کی کثرت نے آیۃمَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ(الفتح:۲۹)کی موعودہ خیروبرکت کوپورا کیا،آیۃ مِن آیۃٍ مِنکُم میں مرتدین کی جنگ کی طرف جو اشارہ ہے وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں ہوئی،إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ(القیامۃ:۱۷) میں کتابی شکل میں قرآن مجید کی تدوین کی طرف جو اشارہ ہے اس کی تکمیل حضرت ابوبکر ؓ اورحضرت عمرؓ اورحضرت عثمان ؓ کی کوششوں سے ہوئی قتال خوارج کی نسبت حدیث میں آیا ہے کہ اگر میں ان کو پاتا تو عاد کی طرح قتل کرڈالتا اوران کی جنگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں ہوئی۔ امورِ دین میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصریح کے مطابق ان کا قول و فعل حجت تھا ؛چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘تم پر میری سنت اورمیرے بعد خلفائے راشدین ؓ کی سنت اتباع فرض ہے،حضرت ابن مسعود ؓ اورحضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ میرے بعد کے لوگوں میں ابوبکر ؓ اورعمر ؓ کی تقلید کرو۔ غرض اس قسم کے بے شمار فضائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا اوررسول کی مرضی کے مطابق خلافت کے حقیقی مستحق اوراس کی تعریف کا صحیح مصداق صرف خلفائے اربعہ ؓ تھے اوران کے کارنامہ ہائے زندگی بھی جو اس کتاب میں مذکور ہیں،اس کی تصدیق کریں گے۔