انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
قضائےعمری کے سستے نسخوں کی تردید وتضلیل الوداع جمعہ کے دن قضائے عمری کی نماز کا کیا حکم ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جمعۃ الوداع کے دن قضائے عمری کی نماز پڑھنی چاہئے،وہ اس طرح کہ جمعہ کے وقت دورکعت قضائے عمری کی نیت سے پڑھی جائےتوکہتے ہیں کہ اس سے پورے سال کی نمازیں ادا ہوجاتی ہیں اور ایک خیال ہے کہ چار رکعت پڑھنے سے پوری عمر بھر کی قضاءنمازیں ادا ہوجاتی ہیں،لا حول ولا قوّة الا بالله!یہ بات بالکل لغو،مہمل اور غلط ہے،حدیث شریف میں ہے کہ: "اگر کسی نے رمضان المبارک کا روزہ چھوڑ دیا تو عمر بھر اگر روزے رکھتا رہے، تب بھی اس نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی"۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ساری عمر کے نوافل بھی ایک فرض کے قائم مقام نہیں ہوسکتے اور یہاں دو یا چار رکعت نفل (قضائے عمری)کے ذریعہ عمر بھر کے فرائض کو ٹرخانے کی کوشش کی جاتی ہے، بہرحال یہ"قضائے عمری" کا نظریہ قطعاً غلط اور خلافِ شریعت ہے اور اس میں تین غلطیاں ہیں: اوّل: شریعت میں "قضائے عمری" کی کوئی اصطلاح نہیں، شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ مسلمان کو نماز قضاء ہی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص ایک فرض جان بوجھ کر قضاء کردے اللہ تعالیٰ کا ذمہ اس سے بری ہے۔ دوم: یہ کہ جو شخص غفلت و کوتاہی کی وجہ سے نماز کا تارک رہا، پھر اس نے توبہ کرلی اور عہد کیا کہ وہ کوئی نماز قضاء نہیں کرے گا، تب بھی گذشتہ نمازیں اس کے ذمہ باقی رہیں گی اور ان کا قضاء کرنا اس پر لازم ہوگا اور اگر زندگی میں اپنی نمازیں پوری نہیں کرسکا تو مرتے وقت اس کے ذمہ وصیت کرنا ضروری ہوگا کہ اس کے ذمہ اتنی نمازیں قضاء ہیں ان کا فدیہ ادا کردیا جائے، یہی حکم زکوٰة، روزہ اور حج وغیرہ دیگر فرائض کا ہے، اس قضائے عمری کے تصوّر سے شریعت کا یہ سارا نظام ہی باطل ہوجاتا ہے۔ سوم: کسی چیز کی فضیلت کے لئے ضروری ہے کہ وہ آنحضرت ﷺسے ثابت ہو، کیونکہ بغیر وحیٴ الٰہی کے کسی چیز کی فضیلت اور اس کا ثواب معلوم نہیں ہوسکتا، ماہِ رجب کی نماز اور روزوں کے بارے میں، اسی طرح جمعۃ الوداع کی نماز اور روزے کے بارے میں جو فضائل بیان کئے جاتے ہیں، یہ آنحضرت ﷺسے قطعاً ثابت نہیں، اس لئے ان فضائل کا عقیدہ رکھنا بالکل غلط ہے، شریعت کا مسئلہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک فرض ترک کردے تو ساری عمر کی نفلی عبادت بھی اس ایک فرض کی تلافی نہیں کرسکتی، اور یہاں یہ مہمل بات بتائی جاتی ہے کہ دو رکعت نفل نماز سے ساری عمر کے فرض ادا ہوجاتے ہیں۔ (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۳۵۵، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)