عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ضرورت نہیں ہے جیسا کہ نمازِ عشا کے ساتھ نمازِ وتر بغیر اقامت پڑھتے ہیں ۳؎ (جمع بین الصلوٰتین کے باقی احکام یعنی سنن ومستحبات وغیر ہ کیفیتِ حج کے بیان میں مذکور ہیں، مؤلف) رکنِ وقوفِ مزدلفہ : اس واجب یعنی وقوفِ مزدلفہ کا رکن یہ ہے کہ وقوف طلوعِ فجر کے بعد مزدلفہ میں واقع ہو خواہ خود اپنے فعل سے وقوف ادا کرے یا کسی دوسرے شخص کے فعل سے مثلاً یہ کہ کسی دوسرے شخص نے اس کے امر سے یا بغیر امر کے اپنے کندھے وغیرہ پر اُٹھایا ہو ا ہو اور خواہ وہ سویا ہو اہو ،بے ہوشی کی حالت میں ہو ،مجنوں ہو یا نشہ کی حالت میں ہو اور خواہ اس نے وقوفِ مزدلفہ کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو اور خواہ اس کو مزدلفہ کا علم ہو یا نہ ہو ہرحال میں اس کا وقوف صحیح ہوجائے گا جیسا کہ وقوفِ عرفہ کا حکم ہے اور اگر کسی نے مزدلفہ کا وقوف ترک کردیا یعنی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے رات میں ہی حدودِ مزدلفہ سے باہر چلا گیا تو اس پر ترکِ واجب کی وجہ سے دم واجب ہوگا لیکن اگر کسی عذ ر کی وجہ سے اس وقوف کو ترک کیا مثلااس کو ضعف یا مرض یا کوئی اور علت ہے یا عورت کو ہجوم کا خوف ہے تو اس پر دم وغیرہ کچھ واجب نہیں ہوگا ۴؎ اور بحرالرائق میں کہا ہے کہ محیط میں ہجوم کے خوف کو عورت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا بلکہ مطلق بیان کیا ہے پس مرد کو بھی شامل ہے اھ ۵؎ لیکن اس مسئلہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وقوفِ مزدلفہ کے علاوہ اور بھی مناسکِ حج ہیں جو ہجوم سے خالی نہیں ہیں پس اس سے وقوف ورمی وغیرہ واجبات کا ساقط ہونا لازم آئے گا پس اولیٰ یہ ہے کہ ہجوم کے خوف کو عورت کے ساتھ مقید و مخصوص کیا جائے اور محیط کے مطلق بیان کرنے کو اسی تقیید پر محمول کیا جائے کیونکہ عورت کے حق میں یہ عذر