عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہیں ہے پس اگر آخری ڈول کے کنوئیں کے منہ سے باہر آنے سے پہلے کسی نے اس کنوئیں سے پانی نکال کر کپڑا دھویا تو شیخین ؒ کے نزدیک وہ کپڑا ناپاک ہوجائے گا اور امام محمدؒ کے نزدیک وہ کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔ (فتح وبحر ملتقطاً) جن صورتوں میں کنواں بالکل ناپاک نہیں ہوتا اور جن میں پانی نکالنا مستحب ہے: ۱۔ پاک چیز کے کنوئیں میں گرنے سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا (علم الفقہ) پس مسلمان میت کی لاش اگر غسل دینے کے بعد کنوئیں میں گرجائے تو کنوئیں کا پانی ناپاک نہ ہوگا یہی مختارہے (ع وغیرہ) بشرطیکہ اس کے جسم پر نجاست نہ ہو او ر لاش پھولی یاپھٹی نہ ہو (علم الفقہ) اس کی تفصیل تمام ناپاک ہونے کے بیان میں گزر چکی ہے، مولف) ۲۔ شہید اگر (غسل دینے سے پہلے، انواع) تھوڑے پانی میں گرے تو وہ پانی نجس نہیں ہوگا جبکہ ا س کے جسم پر اور کوئی نجاست نہ ہو اور اس سے خون نہ بہہ رہا ہو لیکن اگر اس سے خون بہے گا (اور پانی میں مل جائے گا) تووہ پانی ناپاک ہوجائے گا (ع وش) پس شہید جو بہنے والے خون سے پاک وصاف ہے جو خون اس کے بدن پر شہادت کے وقت کا لگا ہوا ہے وہ معاف ہے (خواہ کتناہی ہو) اس سے پانی ناپاک نہیںہوگا (یعنی اگرشہید کے بدن پر لگا ہواخون بہنے کے قابل نہیں تھا تو اس کے بدن سے دھل کرپانی میں مل جانے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا اور اگر اس کے بدن پر بہنے کے قابل خون لگا ہوا تھا اور خشک ہوگیا تھا اور شہید کے پانی میں گرنے سے اس کے بدن سے جدا ہوکر پانی میں نہیں ملا تب بھی پانی پاک رہے گا کیونکہ شہید کاخون جب تک اس کے بدن پر ہے خواہ کتنا ہی ہو پاک ہے لیکن اگر یہ خون ا س کے بدن سے جدا ہو کر پانی میں مل گیا تو اب وہ پانی ناپاک ہوگیا (بہار شریعت) اور اگر (اب) اس سے بہتا ہوا خون نکلا اور پانی میںملا تو وہ پانی ناپاک