عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صحیح کہا ہے اور اصحابِ فتاویٰ نے کہا ہے کہ یہی اصح اور مختار ہے اس لئے کہ جس طرح آمر نے اس کو مالک بنادیا کہ وہ اس کو بیچ کر اس کی رقم سے حج کرے اسی طرح اس کو اس بات کا بھی مالک بنادیا ہے کہ وہ اس کو کرایہ پر دیدے اور نیز ا سلئے کہ اگر اس کو مالک نہ بنایا جائے تو اس کا کرایہ اس کے لئے ہوگا اوروہ غاصب کی طرح اس رقم کا ضامن نہیں ہوگا اوروہ حج مامور کی طرف سے ادا ہوگا اور اس میت کو نقصان ہوگا لہٰذا میت کا لحاظ کرتے ہوئے واجب ہوا کہ اسکو کرایہ پر دینے کا مالک بنایاجائے پھر اونٹ وارثوں کو واپس کردیا جائے کیونکہ وہ وارثوں کی مِلک ہے ۶؎ اور یہ مسئلہ اصل کے خلاف ضرورت کی وجہ سے لیا گیا ہے کیونکہ اصل یہ ہے کہ جو شخص سوار ہوکر حج کرنے کے لئے مامور ہے جب وہ پیدل کرے گا تو آمر کے امر کا مخالف ہوگا ۷؎ فقیہ ابو اللیثؒ نے نوازل میں کہاہ ہے کہ میرے نزدیک اس کا حج اپنی طرف سے اداہوگا اور وہ اونٹ کے نقصان کا ضامن ہوگا لیکن اگر میت نے یہ اونٹ اس کو سپرد کیا ہو تو ضامن نہیں ہوگا ۸؎ جیسا کہ اگر کسی شخص نے دوسرے شخص کو وکیل بنایا کہ وہ اس کا اونٹ سودرہم میں بیچ دے اور اس نے وہ اونٹ سو درہم کرایہ پر دیدیا تو یہ جائز نہیں ہے پس اسی طرح یہ بھی ہے ۹؎ شرطِ ہشتم : (۱)آمر کے وطن سے حج کرنا جبکہ متروکہ تہائی مال میں گنجائش ہو ورنہ میقات سے پہلے پہلے جس جگہ سے ہوسکے استحساناً وہاں سے کرادیا جائے اور اگر اتنا مال بھی نہ ہوتو وصیت باطل ہے ۱؎ (۲) اور اگر مطلق طور پر وصیت کی ہو تو جس شہر میں رہتا ہو وہا ںسے حج کرایا جائے کیونکہ اس پر اپنے شہرسے حج ادا کرنا فرض ہوا ہے پس جب وصیت مطلق ہوتو مطلق کو اسی کی طرف لوٹا یا جائے گا ۲؎ پس جو شخص گھر سے روانہ ہوا اور راستہ میں مرگیا اگر اس