عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے باندھنا چاہئے ۔ سابقہ زمانہ میں صدیوں سے یعنی جب سے مشرقی ممالک سے آنے والے بحری جہاز جدہ کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے لگے ہیں تمام حجاجِ کرام سمندر میں یلملم کی محاذات سے احرام باندھتے رہے ہیں جو جدہ سے کئی گھنٹے کی مسافت پر پہلے ہی آجاتی ہے لیکن اب کچھ عرصہ سے اکابر علمائے کرام کی ایک جماعت کی تحقیق ہے کہ پاک و ہند و دیگر بلادِ شرقیہ سے آنے والے حجاج کرامکوجدہ تک احرام مؤخر کرنا جائز ہے اور دوسرے علماء کرام کی ایک جماعت کی تحقیق ان حضرات کے خلاف یہ ہے کہ جب سمندر میں یلملم کی محاذات میں جہاز پہنچتاہے وہا ں سے احرام باندھنا واجب ہے، اس سے آگے بغیر احرام گزرنے پر گنہگار ہوگا اور دم واجب ہوگا۔ جدہ تک احرام کو مؤخرکرناجائز فرمانے والے حضرات میں مفتی اعظم پاکستان استاذ العلماء مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی قدس سرہ‘ اور بعض دیگر حضرات ہیں، چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی قدس سرہ‘ کا مضمون ’’مواقیت ِ احرام کا مسئلہ ‘‘ ماہنامہ البلاغ کے ماہ شوال و ذیقعدہ ۱۳۸۸ھ کے شماروں میں دو قسطوں میں شائع ہوچکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:۔ (۱) یلملم کی محاذات میں جو تجاوز بحر میں ہوتا وہ تجاوز آفاق کے اندر ہے حِلّ یا جہتِ حرم میں نہیں ہے اس کو موجبِ دم قرار دینا سمجھ میں نہیں آتا۔ (۲) جدّہ کو فقہا کا داخلِ میقات کہنا اس کے منافی نہیں کہ جدہ سے احرام باندھنے کو جائز قرار دیا جائے کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جتنے بھی مواقیت ہیں وہ سب اجزاء حلّ ہوتے ہیں باہر سے بقصدِ مکہ آنے والا یہاں سے احرام باندھ سکتا ہے اور یہاں اور اس کے قُرب و جوار کا رہنے والا حِلّی کہلاتا ہے اس کے لئے دخولِ مکہ بلا احرام جائز ہے۔