عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گے تاکہ ا س پر بلائے عظیم کیساتھ حسرت عظیم بھی ہو۔ مومن گنہگاروں کو ان کے گناہ کے مطابق عذاب ہوکر موقوف ہوجائے گا اور کبھی کچھ مدت کے بعد بغیر اس کے کہ بقدر گناہ عذاب پورا ہو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے رہائی کردیتا ہے اور کبھی دنیا کے لوگوں کی دعا اور صدقہ وخیرات سے عذاب دور ہوجاتاہے۔ خصوصا جمعہ کے روز ہر مومن گنہگار کو عذاب سے رہائی ہوجاتی ہے اور اسی طرح رمضان المبارک میں رہائی ہو جاتی ہے پھر جب اور جس کیلئے اللہ تعالی چاہتاہے رہائی ہوجاتی ہے۔ ضغطۂ قبر: (قبر کی گھبراہٹ اور تنگی ) نیک بندوں کو بھی ہوتاہے اور وہ کسی گنا کے سبب یا کسی نعمت کا شکرانہ بجا لانے کے سبب ذراسی دیر کیلئے ہوتا ہے پھر اسی وقت دور ہوجاتا ہے بعض کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نہیں ہوتا۔ جو لوگ قبر میںدفن نہیں کئے جاتے بلکہ جلائے جاتے ہیں یا پانی میں ڈوب کر مر جاتے ہیں اور مچھلیاں وغیرہ کھاجاتی ہیں یا ان کی نعش کو چیل کوے وغیرہ کھاجاتے ہیں ان کو بھی عذاب قبر ہوتاہے۔ یہاں قبر سے مراد وہ گڑھا نہیں ہے جو زمین کھود کر میت کو اس میں دفن کیاجاتاہے کیونکہ عذاب تو روح کو دیا جاتاہے۔اور روح فنا نہیں ہوتی بلکہ کسی خاص مقام میں رکھی جاتی ہے پس وہ مقام جہاں مرنے کے بعد برزخ میں روح کو رکھا جاتاہے وہی یہاں قبر سے تعبیر کیاجاتا ہے اور اسی عالم کے مناسب لوہے کی سلاخوں اور سانپ بچھوؤں وغیرہ سے اس کو عذاب دیا جاتاہے جو اس عالم جسمانی سے بالکل مختلف ہے۔ اور نیکوں کی روح کے مقام کو عالم بالا یعنی علیین کہتے ہیں اور گنہگاروں کی روح کے مقام کو عالم پست یعنی سجین کہتے ہیں جوہیبت ناک وپر اندوہ جگہ عالم سفلی میں ہے، البتہ ان کے اجسام اگر باقی ہیں تو ان کے ساتھ بھی ان ارواح کاایک ادنیٰ ساتعلق باقی رہتاہے، اسی