عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں رہتا ہے پس یہ ایک لحاظ سے خشکی کا جانور ہے اس لئے محرم کے لئے اس کا شکار کرناجائز نہیں ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اگر سمندر ( یا دریا ) زمینِ حرم میں پایا جائے تو اس کا شکار بھی جائز ہے کیونکہ آیتِ مبارکہ اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ کا مضمون عام ہے اور جو حدیث اوپر بیان ہوئی ہے اس میں بھی یہ مفہوم شامل ہے اور شافعیہ رحمہم اﷲ نے بھی اس کی تصریح کی ہے جیسا کہ انہوں نے کہا ہے کہ سمندر (ودریا وغیرہ) خواہ زمینِ حل میں ہو یا زمینِ حرم میں اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہے ( یعنی دونوں جگہ کے دریائی جانوروں کا شکار جائز ہے ) اور انہوں نے صراحت کردی ہے کہ دریائی جانور خواہ کنوئیں کے پانی میں پایا جائے یا تالاب یا چشمہ کے پانی میں پایا جائے سب کا حکم دریا وسمندر کے جانور کے حکم کی مانند ہے کیونکہ اس سے مراد پانی کا جانور ہے ۵؎ شکار کو ہلاک کرنا : (۱)اگر کسی نے احرام کی حالت میں خشکے کی شکار کو قتل کردیا تو اس پر جزا واجب ہوگی، کتبِ متون میں اسی طرح مذکور ہے ۶؎ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُو الَا تَقْتُلُوْ االصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُم’‘o وَمَنْ قَتَلَہ‘ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَآء’‘ مِّثْلُ مَاقَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمْ بِہٖ ذَوَاعَدْلٍ مِّنْکُمْ الآیہ‘‘ (۹۵؍۹)(ترجمہ:اے ایمان والو! جب تم حالتِ احرام میں ہو تو شکار نہ مارو اور تم میں سے جو کوئی اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر جزا واجب ہوگی جو اس جانور کے مساوی ہوگی جس کو اس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر آدمی کردیں ) (۲) شکار کو مارنے کا حکم مطلق بیان ہوا ہے پس اس حکم میں جان بوجھ کر اور بھولے سے اور خطا ( غلطی) سے مارنے والا برابر ہے خواہ وہ شخص پہلی بار شکار مارنے والا ہو یا دوسری بار یعنی دوسرا جانور شکار کرنے والا ہو اور خواہ پہلی دفعہ حج کرنے والا ہو یا دوسری