عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تو صحتِ احرام کے لئے کافی ہے اور اسی طرح اگر مبہم معلق بنسک الغیر کی نیت کرے یعنی یہ کہے اَحْرَمْتُ بِمَا اَحْرَمَ بِہٖ فُلَانٌ (یعنی فلاںشخص نے جس قسم کا احرام باندھا ہے میں بھی اسی قسم کا احرام باندھتا ہوں) یا مطلق احرام کی نیت کرے (اور کچھ بھی تعین نہ کرے) تو یہ نیت بھی احرام کی صحت کے لئے کافی ہے ۔ ۷؎ مبہم اور مطلق نیّت کے مسائل : (۱) مبہم نیت سے مراد یہ ہے کہ حج یا عمرہ یا دونوں کا تعین کئے بغیر محض نسک کی نیت سے احرام باندھے اور اگر کسی شخص نے یہ نیت کی کہ فلاں شخص نے جس چیز کا احرام باندھا ہے میں بھی اسی چیز کا احرام باندھتا ہوں یعنی نیت معلق بنسک الغیر کی اور وہ یہ نہیں جانتا کہ اس دوسرے شخص نے کس چیز کا احرام باندھا ہے تو یہ بھی مبہم نیت کہلائے گی اور مطلق نیت سے مراد یہ ہے کہ صرف احرام باندھنے کی نیت کرے اور کچھ نہ کہے ۱؎ پس اگر کسی شخص نے فقط احرام کی نیت کی اور اس کے ساتھ کسی اور چیز کی نیت نہیں کی یا نسک کی نیت کی لیکن نسک کا تعین نہیں کیا یعنی حج یا عمرہ یا قران نہیں کہا تو اس کا احرام بالاجماع صحیح ہوجائے گا اور اس پر ممنوعات احرام سے بچنا لازم ہوجائے گا اور اس کو حج یا عمرہ دونوں میں سے کسی ایک کو پورا کرنا لازم ہوگا اور ان دونوں میں سے کسی ایک کے اعمال شروع کرنے سے پہلے اس کو چاہیئے کہ دونوں میں سے جس کو چاہے متعین کرلے پس اگر اس نے متعین نہ کیا حتیٰ کہ اس نے عمرہ کے لئے یا مطلق طور پر طواف کرلیا خواہ طواف کا ایک ہی چکر کیا ہو اس کا احرام عمرہ کے لئے متعین ہوجائے گا یا اس نے طواف سے پہلے وقوفِ عرفات کرلیا تو اب اس کا احرام حج کے لئے متعین ہوجائے گا اگرچہ اس نے اپنے اس وقوف میں حج کا قصد نہ کیا ہو لیکن وہ شرعاً اسی کی طرف پھیرا جائے گا اور