عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یعنی فرض وواجب وسنت ومستحب بیان کی ہیں لیکن یہ بات غسل میت کے علاوہ باقی میں ظاہر ہے (ش ملحضاً) اس لئے کہ باب الجنائز میں منقول ہے کہ غسل میت فرض ہے اس لئے ا س پر واجب کا اطلاق نہ کرنا اولی ٰ ہے کیونکہ اس سے ہماری مشہور اصطلاح کی بناء پر بسا اوقات یہ متوہم ہوتا ہے کہ یہ فرض نہیں ہے۔ (بحر) تیسری قسم غسل سنت (۱) یہ بھی چار طرح کا ہے او ریہ جمعہ وعیدین وعرفہ کے دن اور احرام باندھنے کے وقت کا ہے (ع وبدائع وہدایہ وغیرہا) بعض مشائخ کے نزدیک یہ چاروں غسل مستحب ہیں شرح منیۃ المصلی میں اس کو اصح کہا ہے اور فتح القدیر میں اس کی تائید کی ہے لیکن صاحب فتح القدیر کے شاگرد ابن امیر حاجیؒ نے حلیہ میں جمعہ کے غسل کو سنت قرار دیاہے کیونکہ اس پر ہمیشگی منقول ہے (ش) (۲) جمعہ کے دن کا غسل امام ابو یوسفؒ کے نزدیک جمعہ کی نماز کے لئے ہے، یہی صحیح ہے اور یہی ظاہر الروایت ہے اور کبیری میں ہے کہ یہی اصح ہے اور امام حسن بن زیاد کے نزدیک یہ غسل جمعہ کے دن کیلئے ہے (ہدایہ وع وکبیری وش ملتقطا) اور اس اختلاف کا تیجہ ان صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اول جس شخص پر جمعہ فرض نہیں ہے اس کے حق میں یہ غسل سنت ہے یا نہیں ہے (فتح) پس امام ابو یوسف کے نزدیک اس کے حق میں یہ غسل سنت نہیں ہے اور امام حسنؒ کے نزدیک سنت ہے اور احادیث سے امام ابو یوسفؒ کے قول کی تائید ہوتی ہے (مؤلف) صحیحین میں روایت ہے کہ تم میں سے جو شخص جمعہ کی نماز کے لئے آئے تو اس کو چاہئے کہ غسل کرلے اور ابن حبان کی روایت میں ہے کہ جو مرد وعورت جمعہ کی نماز میں آئیں ا ن کو غسل کرلیناچاہئے اور بیقہی کی روایت میں ہے کہ جو شخص جمعہ کی نماز میںنہ آئے توا س پر غسل نہیں ہے (ط) دوم جس شخص نے غسل کیا پھر اس کو حدث ہوا اور ا س نے وضو