عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پردلالت کرتا ہے کہ میت کو ثواب اس وقت ملتا ہے جبکہ حاجی حج ادا کرنے کے بعد اس کا ثواب میت کو بخش دے اھ ۶؎ شرطِ پنجم : (۱)سفرِ حج کے مصارف میں حج کرانے والے کا مال خرچ ہونا جبکہ حج کرانے والے نے حج کرانے کا امر صریحاً کیا ہو پس اگرحج کرنے والے نے تبرعاًاپنے مال سے خرچ کرکے اس کی طرف سے حج کیا تو اس کا حج ہوگا حج کرانے والے کا ادانہ ہوگا حتیٰ کہ دوبارہ اس کے مال میں سے خرچ کرکے حج ادا کرے اور اسی طرح اگر اس نے وصیت کی کہ اس کے مال میں سے اس کا حج کرایا جائے اور مرگیا پھر اس کے وارث نے تبرعاً اپنے مال میں سے خرچ کرکے اس کی طرف سے حج کیا تب بھی حج کرانے والے کا حج ادا نہ ہوگا کیونکہ اس پر جو حج فرض ہوا ہے وہ اس کے مال سے تعلق رکھتا ہے پس جب اس کے مال سے حج نہیں کیا گیا تو اس کا فرض ساقط نہیں ہوا اور اس لئے بھی کہ امام محمدؒ کا مذہب یہ ہے کہ حج فی نفسہٖ حج کرنے والے کا واقع ہوتا ہے اور جس کی طرف سے حج کیا جاتا ہے اس کو نفقہ ( خرچ) کا ثواب ملتا ہے پس جب اُس نے مال خرچ ہی نہیں کیا تو اس کے لئے اصلاً کوئی چیز نہیں ہے ۱؎ (۲) آمر کا مال خرچ کرنے میں اکثر نفقہ کا آمر کے مال سے خرچ ہونا شرط ہے اور قیاس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ کل مال آمر ہی کا خرچ ہو لیکن اس کے لازم کرنے میں حرج ہے کیونکہ انسان دن رات ہر وقت مال ساتھ نہیں رکھتا اور کبھی اس کو اچانک پانی یا روٹی کے ٹکڑے وغیرہ استعمالی اشیاء کی ضرورت لاحق ہوجاتی ہے اس لئے فقہا نے استحساناً قلیل مقدار کو ساقط الاعتبار قرار دیا اور اکثر نفقہ کا اعتبار کیا کیونکہ اکثر کل کے حکم میں ہوتا ہے ۲؎ پس اگر آمر کی طرف سے حج کرنے والے نے اکثر نفقہ آمر کے مال میں سے خرچ کیا